ادب اطفال کی مقبولیت، ناول نگاری اورنونہالوں کی دل چسپی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
قسط اول ناول“ ہولوکاسٹ، غزہ اور ٹائم پورٹل“ سے پیدا شدہ سوالات پر بحث ازقلم: ذوالفقار علی بخاری پاکستان میں ادب اطفال کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ کچھ احباب فرماتے ہیں کہ لکھنے والے کم ہیں۔اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اخبارات میں بچوں کے صفحات،بچوں کے رسائل اورنئی کتب سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔دل چسپ بات ہے کہ کئی احباب نامور ادیبوں کے ناموں سے واقف نہیں، حالاں کہ اُنھوں نے اپنی عمر ادب اطفال کی دی ہے۔ادب عالیہ سے تعلق رکھنے والے کئی احباب بچوں کے ادیبوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔تاہم کچھ بچوں کے ادیب ایسے ہیں جنھیں ادب عالیہ کی معتبر ہستیاں سراہتی ہیں،اِنھی میں سے ایک نعمان فاروق ہیں۔ اِس کی وجہ اُ ن کی بھرپور قابلیت ہے۔ نعمان فاروق ادب اطفال کے میدان میں بھی قدم رکھ چکے ہیں۔اِن کے نئے ناول”ہولو کاسٹ، غزہ اورٹائم پورٹل“ کی اشاعت نے چونکا دیا ہے،جس کی بنیادی وجہ موضوع ہے۔سرورق دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کیا اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا؟ ہاشم ندیم کا ”خدا اورمحبت“ ایسا ناول ہے، جو یہودیوں کے“ہولوکاسٹ”مفروضے کی حقیقت بھی بیان کرتا ہے اور مسلمان اور یہودیوں کا تعلق بھی۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہولوکاسٹ کا مفروضہ نونہالوں کو سمجھنا کیوں ضروری ہے؟ہاشم ندیم کی سمجھ آتی ہے کہ اُنھوں نے بڑوں کے لیے لکھا،اِسے بچوں کے لیے کیوں اہم تصور کیا گیا ہے؟کیا دیگر متنازعہ معاملات بھی نوعمری میں بچوں کو آگاہ کیے جائیں گے، دورحاضرمیں چوں کہ وہ سب جانتے ہیں اوردیکھتے ہیں،لہذاادب اطفال کو اِ س سے روشناس ہونا چاہیے۔ محمد شاہد حمید جو کہ کئی حوالوں سے معتبر ہیں،آپ کی رائے ناول کے بیک ٹائٹل پر موجود ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ نونہالوں کے لیے اِس ناول کی اشاعت کیوں ضروری تھی۔ایک ایسے ملک میں جہاں عملی طور پر نوجوانوں کو سیاست میں دل چسپی لینے سے باز رکھا جاتا ہے، اُنھیں کس وجہ سے تاریخ اورسیاسی حوالے سے باشعور بنانے کی جسارت ہوئی ہے کہ وہ حقائق کو جانیں۔ کیا نوعمروں کے لیے ایسے موضوعات مناسب ہیں؟ کیا ایسے موضوعات کو انیس برس کی عمر کے بعد پڑھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ہم کس وجہ سے خاص موضوعات کو وقت سے قبل پڑھا کر بچوں کو خاص رخ پر مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگر یہ ٹین ایجرز کے لیے لکھا گیا ہے تو کیا ناول نگار نے اُن کا نقطہ نظر جانے کی کوشش کی ہے۔ اِس حوالے سے ایک تلخ تجربہ بتانا ضروری ہے۔ راقم الحروف کو نمل یونی ورسٹی، اسلام آباد کے کتاب میلے میں جانے کا اتفا ق ہوا۔جس میں ایک والدنے بچے کو ”خونی جیت“ نامی کتاب محض لفظ”خونی“ لکھا ہونے کی وجہ سے خریدنے نہیں دی۔اُس والد نے کیا سوچ کر کتاب نہیں خریدنے دی ہوگی،یہ ناول نگار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ اُن کے ناول کا نام پہلی نظر میں کسی نونہال کو متاثر نہیں کرے گا اور سرورق پر خون کے چھینٹے بچوں کے لیے خوف و ہراس پیدا کرسکتے ہیں،ایسے میں ناول کی خریداری مشکل ہو سکتی ہے،یہ ایک تکینکی معاملہ ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی ناول نگار کے لیے اولین ترجیح نونہالوں کی پسند ہونی چاہیے،اگرمخصوص احباب کی رائے زیادہ اہم ہے تو پھرناول نگار کی خواہش کا احترام سب پر لازم ہے۔اِس حوالے سے معتبر ماہر نفسیات، والدین اوربالغ نظری رکھنے والے افراد جو تحقیقی حوالے سے شناخت رکھتے ہیں،اُن کی رائے سامنے آنی چاہیے۔ یہ ادب اطفال کے فروغ کے حوالے سے اہم ترین قدم ثابت ہوگا،اگراِیسے موضوعات کو مستقبل میں درست انداز میں عیاں کیا جاتا ہے۔ جاری ہے۔ |