ادب اطفال، تحقیق اوردلیل
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری ایک زمانہ تھا جب مورخ اپنی مرضی کی تاریخ لکھا کرتے تھے اورکسی کو اُن کے لکھے پر اعتراض کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ہر ایک کو اپنی جان پیاری تھی۔ مورخ جو لکھتے تھے اُس کا بھاری بھرکم معاوضہ وصول کرتے تھے اگرچہ بعدازاں حقائق غلط ثابت ہو جاتے تھے لیکن تاریخ لکھنے والوں کو اِس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اُنھیں کن الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔جنھوں نے سچ لکھا یا جھوٹ وہ وقت کے ساتھ ساتھ عیاں ہوتا رہا اورلکھنے والے کی حیثیت متعین کرتارہا۔ دورحاضر میں ادب اطفال کی تاریخ کو عیاں کرنے والے کچھ تاریخ دان ماضی کے اُس مورخ سے مختلف نہیں ہیں جو مخصوص چہروں سے ہٹ کرکسی اور کے بارے میں مثبت اورحقائق پر مبنی مواد پیش کرنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کسی اورکا قد اُونچا نہ ہوجائے اوراُنھیں جواب دہ ہونا پڑے۔ یہ کس طرح کے مورخ اورمحقق ہیں جنھیں حقائق کو تحریری صورت میں پیش کرنے سے خوف طاری ہوتا ہے اوردوسروں کی باتوں کو سند قرار دے کر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ راقم الحروف کے حوالے سے غلط اورحقائق کو توڑ مروڑ کرکہا گیا کہ اولین تشہیرکہانی لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔جب کہ بات کچھ اورتھی چوں کہ کردارکشی کرنی تھی تو اُسے اور رنگ دے دیا گیا۔ حیران کن طور پر یہ تحقیقی میدان میں قابل تعریف سمجھے جانے والے ایک موصوف کی جانب سے کیا گیا جو کہ غیراخلاقی حرکت تھی۔کسی بھی شائع ہونے والے مضمون کے مندرجات سے اتفاق نہ ہونے پر تحریری ردعمل تاریخ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ زبانی ردعمل محض دل کی بھڑاس نکالنا ہو سکتا ہے وہ تحقیقی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔ جنھیں تحقیق کرنی ہوتی ہے وہ مناسب اورباوقار انداز سے تحریری طور پرسب عیاں کرتے ہیں۔ تشہیر کہانی کے حوالے سے راقم الحروف کی دی گئی دلیل کا منطقی جواب طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اخبارات یا رسائل کی زینت نہیں بنا۔ لیکن طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر کی گئی جس کا مقصد محض تشہیرکہانی کو بطورموضوعاتی صنف مقبولیت حاصل کرنے سے روکنا تھا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ناقدین کی جانب سے اپنی منطق کو شائع کروانے سے گریز کیا گیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ کہیں کچھ پوشیدہ ہے۔راقم الحروف نے اپنی اولین تشہیرکہانی لکھنے کاتذکرہ کیا جسے کچھ اورسمجھ کر اپنے مذہوم مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا گیا، یہ ایک محقق کی سازش ہی قرار دیں گے۔ حیران کن طور پر دنیا بھر سے کسی ایک فرد کی جانب سے موقف کی تردیدکے حوالے سے کوئی تحریری دلیل سامنے نہیں آئی۔اگرچہ ماضی کی کچھ نظموں اور کہانیوں میں تشہیری رنگ تھا لیکن اُنھیں تشہیری نظم یا کہانی قرارنہیں دیا جاسکتا ہے،اِس کی وجہ آگے چل کر بیان کریں گے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا تشہیرکہانی کو بطورموضوعاتی صنف مقبولیت حاصل ہونا کسی فرد واحد کو نفع پہنچائے گا؟ ادب اطفال میں اولین آپ بیتی کس نے لکھی؟ کس نے بچوں کے ادیبوں کے حالات زندگی کتابی صورت میں منظرعام پر لانے کی کوشش کی۔ اِس پر کبھی مذکورہ موصوف نے تحقیق کرکے حقائق تحریری طور پر اخبارات یا رسائل میں شائع کروائے ہیں؟ ایک مقالے میں کچھ نظموں کا خالق کسی اورکو قرار دیا گیا۔کیا مذکورہ مقالے پر مورخ اورمحقق کہلوانے والے صاحب نے تحریری طور پر اخبار یا رسالے میں لکھا ہے؟یہ کیسا خوف ہے کہ وہ آزادی سے کام نہیں کر پا رہے ہیں اورتحریری طور پر پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیا بچوں کے لیے شائع ہونے والی نامناسب کہانیوں پر کبھی مقالہ لکھا ہے تاکہ ادیبوں کو ادب اطفال کی حقیقی روح سمجھنے میں مدد مل سکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادب اطفال کی اکثریت کو اوسط درجے کا قرار دینے پرمذکورہ موصوف لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔لیکن اُنھیں ”ناد علی کی دنیا“ نامی کتاب اورہولوکاسٹ کے نظریہ پرراقم الحروف کی گفتگو میں تضاد محسوس ہوتا ہے اورکئی احباب بھی مغالطے کا شکار ہوئے ہیں۔ حالاں کہ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کہانی کا کردار یا کتاب کا نام بچوں پر اتنا اثرانداز ہوسکتا ہے جتنا ادب اطفال کے نام پر ادب عالیہ پیش کرنے سے ہوگا؟ایسا مواد جو بلوغت کے بعد پڑھنا چاہیے کیا اُنھیں کم عمری میں پیش کرنا ادب اطفال کی خدمت ہوگی؟ کیا غلط رجحان بنانے والوں کی پذیرائی ہونی چاہیے؟کیا سوشل میڈیا پر نامناسب انداز میں معلومات پیش کرکے خود کو عالمی معیار کا محقق سمجھنا چاہیے یا ادیبوں کو اِس بنا پر کسی کی پذیرائی کرنی چاہیے۔افسوس ناک امر ہے کہ اخلاقی اعتبار سے کمزور شخص کو تحقیقی میدان کا بادشاہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جس میں کئی نامورہستیاں پیش پیش ہیں۔کیا ادب اطفال میں ایسے احباب کی گنجائش ہے جن کا اخلاق کم تر ہو کہ ہم ادیب بچوں کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے مگن ہیں اوراپنی ذات کا اِحتساب کرنے سے گریزاں ہیں۔ادب اطفال پر تحقیق کرنے والوں کاظاہر و باطن یکساں ہونا چاہیے تاکہ معیار اورحقائق درست طور پر سامنے آسکیں۔ ہمیں تحقیق کی اہمیت کوسنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔گیان چند جین تحقیق کی ایک تعریف کا تذکرہ کر چکے ہیں ذرا اِسے دیکھ لیجیے۔ ''Discovery of new fact of or Interpretation of old fact.'' تشہیرکہانی کوبطورموضوعاتی صنف متعارف کروانا اِسی کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے بقول”دہکتے ہوئے انگارے کو تحقیق کے نام پر ہاتھ میں پکڑ لینا تحقیق نہیں عقل کی تحقیر ہے۔“ کسی شے کو شک وشبہ سے بالاتر ثابت کیا جائے گا تب ہی تحقیق و تفتیش قرار پائے گی۔مثال کے طور پر امیر خسرو کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اُنھوں نے ”ہندی“ میں شاعری کہی تو جب تک اُس کا ناقابل تردید ثبوت نہیں ملے گا۔ہم اِس زبانی سند پر یقین نہیں کریں کہ واقعی کہی گئی بات میں وزن ہے۔ یہ لکھ لیجیے کہ تشہیرکہانی کو بطورموضوعاتی صنف کبھی تاریخ میں نہ اہمیت دی گئی اورنہ ہی اِسے یہ درجہ دلوانے کی کوشش کی گئی، بلکہ تشہیرکہانی کی اصطلاح ہی کبھی استعمال نہیں کی گئی، کیوں کہ اِسے اِس قابل سمجھا ہی کب گیا تھا۔اِس پر مذکورہ موصوف کاجواب آخر کب تحریری صورت میں منظرعام پر آئے گا؟ جب ایک اصطلا ح دنیائے اردو میں زبان زدعام ہی نہیں ہوئی تو اُس کے حوالے سے اعتراضات کس بنیاد پر کیے گئے کہ کئی احباب تشہیری کہانیاں لکھ چکے ہیں؟کیا ادب اطفال کے تاریخ دان کو انصاف کے ساتھ حقائق پیش نہیں کرنے چاہئیں یا محض ذاتی عناد کے تحت مخصوص چیزوں کو عیاں کرنا چاہیے۔راقم الحروف کو آغا نور محمد سندھی نے آگاہ کیا کہ اُنھوں نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں اِس اصطلاح کا تذکرہ ہی نہیں سنا۔کیا ادب اطفال ایسے افراد کو قبول کرسکتا ہے جو جانبدار ہو کر کام کر رہے ہوں اوردوسروں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوں اوراُن کا کوئی کام قابل تعریف نہ سمجھا جائے؟ یہ ایک اہم نوعیت کا سوال ہے جس پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے۔کیوں کہ مذکورہ موصوف وکی پیڈیا پر ایک ایسے قلم کار کا صفحہ مرتب کرچکے ہیں جن کے کارہائے نمایاں بہت کم ادیبوں کے علم میں ہیں جب کہ کئی معروف ناموں کو یہ اعزاز تاحال حاصل نہیں ہوا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ مورخ اورمحقق قرار دیے جانے والے موصوف نے 2024میں شائع ہونے والی عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری کو بنا خریدے اوردیکھے کچھ ایسے الفاظ میں تنقیدی قصیدے پڑھے کہ اُن کی قابلیت کو داددینا پڑی کہ اُنھیں کتنی عظیم ہستی قرار دیا جا رہا ہے۔کیا ادب اطفال اِس نوعیت کے رویے کا متحمل ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کی محنت کو بغیر دیکھے ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہو جائیں اوردوسری طرف آپ کو عظیم ترین ہستی کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہو اورآپ اِس طرح کا بچکانہ عمل کریں کہ اخلاقیات کی نچلی سطح پر گر جائیں۔ بچوں کے ادب سے وابستہ چاہے ادیب ہوں یا پھر محقق اُنھیں اخلاقیات کا دامن کہیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔آپ کو علمی و ادبی وقار کے ساتھ دلیل دے کر اپنی منطق کو تسلیم کروانا چاہیے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس کا آئیڈیا ہو وہی اُسے بہتر انداز میں مکمل کرکے پیش کرنے کی طاقت رکھتا ہے اورجسے بین الاقوامی سطح پر کوئی جانتا نہ ہو،وہ کس طرح سے عالمی سطح کا معیاری کام منظرعام پر لانے کی جسارت کرسکتا ہے۔کبھی بھی کوئی کسی کی خاطر محنت نہیں کرتا ہے کہ دوسرا پکی پکائی کھیر حاصل کرکے اپنا نام بنائے۔تحقیق کرنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ منطقی دلیل پیش کریں اورقائل کرنے کی کوشش کریں۔ جب بغیر ٹھوس دلیل کے محض کسی کے کام کو رد کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو پھراُسے ناکامی سہنی پڑتی ہے اور بڑے پیمانے پر قبول نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا ایک محقق اورمورخ کا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ سرعام دوسروں کی کردارکشی کرے لیکن تحریری طور پرمضامین کی اشاعت سے باز رہے تاکہ سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری اوراِس سے قبل شائع ہونے والی ڈائریکٹریوں کا موازنہ کیا جائے تو بہت کچھ عیاں ہوگا اورسچائی علم ہوگی کہ کتناجھوٹ دلیری سے بولا جا رہا تھا۔مورخ ہو یا پھر تحقیق کرنے والاکوئی شخص اُن کے پیش کیے گئے مواد کو کبھی نہ کبھی سچائی کی بھٹی پر کندن بنانے کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ سچ اور جھوٹ عیاں ہو سکے۔مذکورہ صاحب کیا عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری پرکبھی زندگی میں دیگر ڈائریکٹریوں کے ساتھ موازنہ کرکے تحریری طور پر حقائق سامنے رکھیں گے؟ کیا محض چند افراد کے کہنے سے کوئی کتاب تاریخ ساز قرار پا سکتی ہے یا کسی زندہ شخصیت پر لکھا گیا مقالہ قابل تعریف قرار پا سکتا ہے؟ بچوں کی ذہنی سطح سے بلند کہانیوں اورمضامین کی اشاعت پر کبھی تحقیق کی جائے گی کہ ایسا کیوں کرکیا گیاہے؟ کیا رسائل میں شائع ہونے والی آپ بیتیوں کا نونہالوں کی زندگیوں پر گہرا اثرپڑا ہے؟کیا پیار،عشق،محبت بھری کہانیوں کو مسلمان معاشرے میں بچوں کو پیش کرنا چاہیے؟ دورحاضرمیں ادب اطفال کا فروغ کن ادیبوں کی مرہون منت ہے؟ اِن موضوعات پر کبھی مذکورہ مورخ اورمحقق تحریری طور پرحقائق سامنے لائیں گے تاکہ علم ہو سکے کہ ادب کا قیمتی اثاثہ واقعی قابل تعریف تھا یا محض تشہیر سے بنا دیا گیا ہے۔ دورحاضر میں ادب اطفال پر کتنی اورکس قدر موثر انداز کی تحقیق کی جار ہی ہے۔ اُس کے بارے میں ادبی جرائد اوراخبارات میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین کی گنتی ہی عیاں کر دیتی ہے۔یہ مضامین کن کی جانب سے لکھے جا رہے ہیں اِس کے بارے میں جاننا ناممکن نہیں ہے۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ادبی جرائد و اخبارات میں تاریخ دان، مورخ اورمحقق کہلائے جانے والے احباب کا مواد دکھائی نہیں دیتا ہے۔لیکن محض سوشل میڈیا پر رائے پیش کرکے عظیم تصور کیے جا رہے ہیں جو کہ ادب اطفال کا المیہ قرار دیا جائے گا۔کیا کسی فرد کو تاریخ دان، مورخ اورمحقق کے طور پر تب نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے جب اُس کی تحریریں معیاری اورمعتبر جرائد واخبارات میں شائع ہو رہی ہو ں ناکہ محض دوسروں کے کہنے پر عظیم تسلیم کیا جائے۔ قصہ مختصر،تحقیق کرنے اورتاریخ لکھنے والوں کا اخلاق معیاری دکھائی دینا چاہیے کہ کردارکشی کرکے آپ عظیم رتبہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔آپ اگرجانبدار ہیں تو پھر کسی منصب پر فائز ہو جائیں آپ کی وقعت نہیں ہوگی۔سوشل میڈیا پرپیش کی گئی اورلوگوں سے حاصل کی گئی یا اُن کی جانب سے دی گئی معلومات کوعیاں کرنے سے کسی کو محقق اورتاریخ دان قرار دیا جائے تو پھر پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے عظیم مورخ ہوں گے، جنھوں نے مذکورہ طریقے سے سوشل میڈیا پر حقائق پیش کرکے خود کو عظیم ثابت کیا ہے،کیا اُنھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازنا چاہیے۔مورخ کو بے شک یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تاریخ لکھے۔ لیکن اُس کے پیش کیے گئے مواد کو رد کرنے کا حق ہر اُس شخص کے پاس ہے جو ناقابل تردید ثبوت اوردلیل دے سکتا ہو۔جب آپ کے پاس محض لفاظی ہو اورآپ دوسروں کی کردارکشی کے مرتکب ہو رہے ہوں تو پھرآپ کا عہدہ کوئی بھی ہو، وہ قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔دلیل اگرناقابل تردید ہو تو پھر بسااوقات اپنی جگہ بطور ثبوت قرار پاتی ہے اوراُسے کسی کی تائید کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ ۔ختم شد۔
|