مفتی کفایت اللہ ، پی ٹی ایم، پی این جے، دہشت گردوں کے محافظ پختونوں کے نہیں ،
(Waseem Akaash, Islamabad)
امن و سلامتی اور قانون کی بالادستی قوموں اور ریاستوں کی تقدیر اور ترقی کی علمبردار ہوتی ہے۔قانون اور قانونی ادارے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے راہیں ہموار کرتے ہیں ۔سکیورٹی فورسز اور افواج کا فرض ہوتا ہے کہ خطے میں امن و امان اور صورتحال کو قابو میں رکھیں تاکہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جا سکے ۔ سرزمین پاکستان کے لئے یہ بات سرمایہ ء افتخار ہے کہ اس ملک کی پاک افواج نے ہمیشہ ملکی خودداری اور سالمیت کو اہمیت دیتے ہوئے ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کا قلعہ قمع کیا ۔سرحد پار سے دشمن کی سازشوں کو متعدد بار شکست فاش دینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو نہ صرف کیفر کردار تک پہنچایا بلکہ علاقائی امن و امان کو برقرار رکھنے میں اہم کردار بھی ادا کیا ۔ تاہم کچھ شر پسند عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز کو کڑی اور بلا جواز تنقید کا نشانہ بنا کر ان کے کردار اور اقدامات کو پامال کیا جا سکے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی جا سکے۔ جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کئے گئے حالیہ آپریشن پر بھی شر پسندوں نے اپنی زبانیں بند نہ کیں بلکہ افواج پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی۔ مفتی کفایت اللہ کا بیان جس میں انہوں نے جنوبی وزیرستان کے ضم شدہ اضلاع میں " شریعت کے نفاذ " کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستا نی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے دہشت گردوں کو "شہید " قرار دیاجو محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک خطر ناک پراپیگنڈا ہے۔یہ پاکستان کےآئین ، شہدا ء کی قربانیوں اورپشتونوں کی وحدت پر براہ راست حملہ ہے ۔ آئین پاکستان اسلام کو ریاستی مذہب تسلیم کرتاہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس ریاست کا مکمل نام اور (آرٹیکل 2 ) اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے (آرٹیکل 227) ، ملک میں وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور پیغام پاکستان جیسے متفقہ فتوے اس بات کو مزید تقویت دیتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفتی کفایت اللہ اس سب کے برعکس کس "شریعت " کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ آئینی و اسلامی شریعت نہیں بلکہTTPاورFAK کی مسخ شدہ ، خوارج نما شریعت کی بات کرتے ہیں ۔وہی نام نہاد شریعت جس کے تحت مساجد ، بازار اور سکول خون سے نہلائے گئے۔ APSسکول کے بچوں کو شہید کر کے مسلمان ماؤں کے کلیجے چیر دیئے گئے اور پشتون عمائدین کو جرگوں میں نشانہ بنایا گیا۔یہ شریعت نہیں بلکہ زمینی فسادہے جسے پیغام پاکستان 2018 نے حرام قرار دیا ہے۔ مفتی کفایت اللہ نے شہادت کی بات کی ہے تو شہید کا درجہ انہیں ملتا ہے جو اسلام ، وطن یا معصوم جانوں کے دفاع میں جان دیتے ہیں ۔ اور قومی سلامتی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔مگر جو لوگ مھض انتہا پسندی کی آڑ میں اور جذباتی پراپیگنڈے میں آکر معصوم جانوں کو بموں سے اڑادیں ۔جنازوں پر حملے کریں ، شہریوں کوناحق قتل کریں ۔انہیں شہید کہنا ، تصور شہادت کی توہین ہے۔یہ الفاظ 94000 پاکستانی شہدا ء کے خون کی بے قدری ہے اور اے پی ایس کے والدین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید مین بجا طور پر کہا گیا ہے کہ شہید قوم کی حیات کا ضامن ہوتاہے ۔ جبکہ مفتی کفایت اللہ ان لوگوں کو شہید کہتے ہیں جو قوم کوموت کے گھاٹ اتارنے پہ تلے ہوئے ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ مفتی صاحب کے بیان کی مذمت کرنے کی بجائے پشتون نیشنل جرگہ (PNJ)نے انہیں سٹیج فراہم کیا ۔بعد میں ان کے ترجمان برکت آفریدی نے بیان کو "ذاتی رائے" قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔سوال یہ ہے کہ ایسی ذاتی رائے اور ذاتی نظریہ رکھنے والے کو مقرر کے طور پر کیوں بلایا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ پلیٹ فارم مہیا کر کے پی این جے نے نہ صرف اس سوچ کو جگہ دی بلکہ اسے جواز بھی فراہم کیاہے۔ اسی طرح PTMکے رہنما عمر پشین بھی ان کے دفاع میں آگے آئے۔انہوں نے انہیں پشتون حقوق کا علمبردار اور "شریعت" کاحامی قرارد یا۔حالانکہ آئین پاکستان پہلے ہی شریعت کی ضمانت دے چکا ہے اور کروڑوں لوگ اس شریعت کے مطابق زندگیا ں گزار رہے ہیں۔تمام تر مذبی اقدار اور سم و رواج کی پاسداری بھی کر رہے ہیں ۔ دراصل یہ لوگ جس "شریعت " کو بڑھاوا دیتے ہیں یہ وہی خونی شریعت ہے جس کا مطلب خودکش دھماکے، سر قلم کرنا اور بچوں کا قتل ہے۔ اور جس کی وجہ سے افغان سرزمین آج دنیا سے کئی سو سال پیچھے جا چکی ہے۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام ایسی شریعت کے نہ قائل ہیں ، نہ خواہاں ہےاور نہ محتاج ۔حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اورایف اے کے کسی آزادی کے مجاہد نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو غیر ملکی ایجینسیوں وں کے اشاروں پر کام کرتی ہیں ، پیغام پاکستان کے مطابق ان کی سوچ خوارج نما بغاوت ہے ۔یہ پشتون شناخت کا سہارا لے کر پشتونوں کو ہی قتل کر تے ہیں اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اصل محافظ کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پشتونوں کے اصل محافظ وہ ادارے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کا قلع قمع کیاہے۔آپریشن راہ نجات، ضرب عضب اور رد الفساد نےوزیرستان کو دہشت گردوں کے خالص ہیڈ کوارٹر سے نکال کر امن کا گہوارہ بنایا۔آج انہیں قربانیوں کے باعث وہاں سڑکیں ، سکول ، اسپتال اور مارکیٹیں دوبارہ آباد ہو رہی ہیں۔پشتونوں کی عزت ، حقوق اور مستقبل، آئین پاکستان کے تحت امن ، ترقی اور تعلیم میں ہے نہ کہ پی ٹی ایم، پی این جے یا مفتی کفایت اللہ جیسے انتہا پسندوں کی خون ریز سیاست میں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اسلام نے محض انتہا پسندی اور خوف و ہراس کی سیاست نہیں کی بلکہ عملی تاثر دے کر بنی نوع انسان کو اخلاق فاضلہ کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو حسن عمل سے لے حسن کردار تک کے مدارج طے کروائے ہیں۔اسلام کی دعوت صرف منبر و محراب تک نہیں ہے بلکہ کرہء ارض کے گوشے گوشے تک ہے۔ اسلام جذبات کا نام نہیں ، احساسات کا نام ہے۔ بقول ڈاکٹر اظہر وحید " اسلام ۔۔"ا" کا سلام ہے، مخلوق کے نام ہے۔" اسلام تو دین فطرت ہے۔ اور سلامتی اس کی پہچان ہے۔ عقائد اسلامی بعد میں آتے ہیں فطرت پہلے آتی ہے اور جس دین کی فطرت ہی سلامتی ہو وہ کسی کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟افواج پاکستان ریاستی امن و امان اور قومی تشخص کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہے اور دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہر محاذ پر شکست فاش سے دوچار کرتی رہے گی۔ |
|