خرافات سائنس
(Tariq Zafar Khan, Karachi)
ایک مطالعے کے دوران "خرافات سائنس "کی اصطلاح دلچسپ لگی تو میں نے اسے سائنسی تاریخ کی روشنی میں موضوع بنانے کا فیصلہ کیا۔ |
|
خرافات سائنس ایک مطالعے کے دوران "خرافات سائنس "کی اصطلاح دلچسپ لگی تو میں نے اسے سائنسی تاریخ کی روشنی میں موضوع بنانے کا فیصلہ کیا۔ جب سے دنیا بنی ہے ،پتھر کے زمانے سے آج عصر حاضر تک ہر دور کا انسان اپنے آپ کو اپنی دانست میں جدید دور میں ہی سمجھتا رہا ہے ۔ آج سے پانچ سو ، ہزار سالوں کے بعد جو دریافتیں اور ایجادات ہو چکی ہوں گی اس کی بنیاد پہ ہمارا زمانہ ، قدیم ، کم علم اور خرافات گردانا جائے تو کچھ عجب نہیں ہو گا۔ گویا انسان ہر دور میں بیمار عصر رہا ہے، ۔۔ بقول شاعر بیمار عصر جلد شفا یاب ہو سکیں گہوارے سے اک اور مسیحا اٹھائیے سائنس کی نئی دریافتوں اور نظریات کو بہت مسحور کن اور دلکش انداز میں لیا جاتا ہے۔ ہر دور میں ان نظریات کو جذ باتی انداز میں حتمی مان کر ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو جاتا ہے،عصری سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ ہر کس و ناکس، چاہے اس کا دور دورتک بھی سائنس کی فہم سے کوئی بھی واسطہ نہ ہو ، اپنی اپنی راگنی الاپنے لگتا ہے۔ خاص طور پر وہ طبقہ جس کا تعلق کسی طرح بھی مذہب ، غیر مذہب یا الحاد سے ہوتا ہے ، نئے نظریے کو حتمی سمجھ کر اپنے حق میں استعمال کرنے یا مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی میں پیش پیش ہوتا ہے ۔ جب سائنس اور جدید اکتشافات کا فتنہ اپنے عروج پر ہواور لوگ دین کی اساسیات میں بھی شک کرنے لگیں تو فتنہ ءتشکیک اپنے عروج پر ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل کے دور میں ہے۔ ایسے میں سائنس کے دبا وء میں آئے ہوئےکچھ مذہبی علماء کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قران میں بیان کیے ہوئےمعجزات اور واقعات کو ان قوانین قدرت کے مطابق بتایاجائے جو اس کائنات میں جاری ہیں۔ مذہبی علماء نے سائنس کے علم کی کم فہمی کے باعث یہ سمجھ لیا کہ وہ قوانین قدرت جن کو انسانوں نے اب تک سمجھا ہےوہ ہی اصل ہیں اور ان کے اندر رد و بدل ممکن نہیں ہے، لہذہ جس قدر معجزات وخلاف عادت واقعات قرآن میں مذکور ہیں ان کی ایسی تاویلات اور تعبیرات کی جاتی ہیں کہ وہ موجودہ سائنس کے مطابق ہوجائیں اور ایسے واقعات ہوجائیں جوقدرتی قوانین کے خلاف نہ ہوں۔ بعض معجزات کی بھی ایسی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ معقول یا عصری سائنس کے مطابق بن جائیں ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ قوانین قدرت ان قوانین قدرت تک محدود نہیں ہیں جن کا تمہاری عقل نے اب تک ادراک کرلیا ہے۔ جن قوانین قدرت کو انسان نے سمجھا ہے وہ اس کائنات میں نافذ قوانین قدرت کا نہایت ہی معمولی حصہ ہیں ۔ ابھی اور پتہ نہیں کیا کیا دریافت ہونا باقی ہے۔ عقل کوئی آخری حاکم اور سپریم جج نہیں ہے اور عقل کی معقولات ہی آخری معیار نہیں ہیں۔ کیونکہ عقل اور سائنس علمی ارتقاء اور نئی دریافتوں کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات بدلتی رہتی ہے ، اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دور میں فلسفی، سائنس داں اور دانشور اپنے نظریات کو صحیح مان کر ان کا دفاع کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اسے ایک طرح کی ہٹ دھرمی ، انا کا مسئلہ یا علمی تعصب کہا جاسکتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ پرانی سائنسی خرافات نئی دریافتوں اور مشاہدات کی بنیاد پر رد کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ جن سائنسی نظریات کو آج مصّدقہ سمجھا جا رہا ہے وہ کل خرافات ثابت ہوں ۔ اب سائنس کی خرافات تاریخی واقعات کی روشنی میں کیا ہیں اور کیوں انہیں خرافات کہا جا سکتا ہے، اور سائنسداں خود نئے نظریات کی راہ میں کیسےرکاوٹ بنے، اسے سمجھتے ہیں ۔ یعنی کائنات کے بارے میں وہ نظریات جو اپنے اپنے وقت میں مصّدقہ سمجھے جاتے تھے لیکن بعد میں تحقیق سے خرافات ثابت ہوئے۔ ان میں سے چند یہ ہیں: خرافات نمبر ۱۔۔انیسویں صدی کا حرارت بطور مادہ کا نظریہ : ۔1783 caloric theory by Antoine Lavoisier 1841ء تک حرارت کو ایک مادی شے سمجھا جاتا تھا، ایک سیال جسے "کیلورک" کہا جاتا تھا جو اشیاء کے درمیان بہہ سکتا تھا۔ جول کا چیلنج، ۔۔۔ کیلورک نظریہ کا خاتمہ: 1841ء میں جول نے اسے چیلنج کیا۔اس نے بتایا کہ میکانی حرکت گرمی پیدا کر سکتی ہے. ۔۔یہ ایک انقلابی نظریہ تھا۔ اس حقیقی دریا فت کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں تعصب اور انا کے مسائل بھی شامل تھے۔ سائنس میں بھی پرانے خیالات اور نظریات کو ترک کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ شہادتوں کے ہونے کے با وجود لوگ اپنے پرانے نظریات کا آخری دم تک دفاع کرتے ہیں ۔ 1850ء میں نو سال کی کوششوں کے بعد اس کا نظریہ قبول کر لیا گیا۔ جس سے حرارت کی سائنس کےایک انقلابی دور کا آغاز ہوا۔ تھرموڈینامکس کا پہلا قانون بنا او رپھر دوسرا اور پھرتیسرا۔ اس قانون کا اطلاق کر کے انجن سمیت بہت سی دیگر مشینری ایجاد کی گئیں۔1872ء،جول کو برٹش ایسوسی ایشن برائے ترقئ سائنس کا صدر نامزد کیا گیا، جول کو نوبل پرائز ملنا چا ہئے تھا لیکن نہ مل سکا کیونکہ پہلا نوبل پرائز 1901 ء میں جاری کیا گیا ، جول کا انتقال 1889ء میں ہو چکا تھا۔ کائنات اور اجرام فلکی خرافات نمبر۲۔۔زمین کے مرکز کائنات ہونے کا نظریہ Geo centric model فلکیات کے پرانے نظریات بنیادی طور پر یہ نقطہء نظر رکھتے تھےکہ زمین کائنات کا مرکز ہے، اس کے گرد سورج، چاند اور ستارے گھومتے ہیں، کیونکہ نظر ایسے ہی آتا ہے! یہ نظریہ قدیم یونان میں صدیوں تک برقرار رہا۔ افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں نے اس نقطہ نظر کی حمایت کی ، تاہم، متبادل ماڈلز، جیسے کہ سورج کا مرکز ہونا ،بھی ابھرے لیکن ابتدائی طور پر انہیں بڑے پیمانے پر قبول نہیں کیا گیا ۔ دوسری صدی عیسوی میں بطلیمیوس نے سیاروں کی ظاہری الٹی حرکت کی وضاحت کے لیے ایپی سائیکل (حلقوں پر دائرے) شامل کرکے جیو سینٹرک نقطہ نظر کو بہتر کیا۔ کوپرنیکس کا سورج مرکز ماڈل ۔۔جس پر کلیسا نے پابندی عائد کی۔۔ زمین کے مرکز ہونے کے نظریےکا خاتمہ Heliocentric model 16 ویں صدی میں، نکولس کوپرنیکس نے سورج کو نظام شمسی کے مرکز میں رکھ کر اور سیاروں کی حرکت کو زیادہ درست طریقے سے بیان کرتے ہوئے، ہیلیو سینٹرک ماڈل کو زندہ کیا۔ اس نظریہ کو مذہبی طبقوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔17 ویں صدی میں پروٹسٹنٹ چرچ نے کوپرنیکن خیالات پر پابندی عائد کر دی۔ کشش ثقل پر آئزک نیوٹن کے کام نے سورج کے گرد سیاروں کی حرکات کے لیے وضاحت فراہم کی، جس نے ہیلیو سینٹرک ماڈل کو مستحکم کیا۔ وقت، خلاء اور کشش ثقل خرافات نمبر ۳۔۔۔کشش ثقل کی نوعیت: نیوٹن ( پیدائش 1643ء )نے کشش ثقل کو بڑے پیمانے پر اشیاء کے درمیان کشش کی قوت کے طور پر دیکھا۔ خلاء میں خم کا نظریہ۔۔ نظریہء اضافیت۔۔۔۔ کشش ثقل کے قوت ہونے کا خاتمہ Wrapping of space...general theory of relativity آئن سٹائن(پیدائش1879ء ) نے 1915ء میں کشش ثقل کو کمیت اور توانائی کی وجہ سے خلا اور وقت کے گھماؤ یا خم کے طور پر دوبارہ بیان کیا۔ بڑے پیمانے پر اشیاء خلاء اور وقت کے تانے بانے میں خم پیداکرتی ہیں، اور یہ بگاڑ یا خم بتاتا ہے کہ اشیاء خلا میں کیسے حرکت کریں۔ اگر چہ یہ ہمارے وجدانی تخیل کے خلاف ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ 1919ء میں سر آرتھر نے مکمل سورج گرہن کا فائدہ اٹھا کر اس نظریہ کو تجربہ سے ثابت کیا۔ خرافات نمبر۴۔۔۔خلا اور وقت کے الگ ہونے کا نظریہ : نیوٹن نے جگہ اور وقت کو الگ الگ، مطلق کے طور پر سمجھا۔ وقت کی رفتار مستقل ہے اور حرکت ،وقت سے۔۔۔ یا وقت حرکت سے۔۔۔ الگ اور لا تعلق ہے۔ زمان اور مکان الگ ہونے اور وقت کی رفتار مستقل ہونے کے نظریے کا خاتمہ Time dilation and contraction of length... Space-time fabric آئن سٹائن کے نظریہ خصوصی اضافیت، نے یہ ثابت کیا کہ جگہ اور وقت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور وقت کی رفتار حرکت کی رفتار سے متاثر ہو کر دھیمی یا تیز ہو جاتی ہے۔ اس سے وقت کے پھیلاؤ اور لمبائی کے سکڑاؤ جیسے نظریات معلوم ہوئے۔ خرافات نمبر ۵۔۔۔ ۱۸۷۸ء میں ایک معزز طبیعیات دان کا فزکس کے بارے میں غلط خیال اور ۱۹۱۸ ء کا نوبل پرائز : Johann Philipp Gustav von Jolly (ستمبر 1809 - 24 دسمبر 1884) ایک جرمن تجرباتی طبیعیات دان تھا۔ اس نے کشش ثقل کے اسراع کو درستگی کے ساتھ ناپا اور اوسموسس پر بھی کام کیا۔ میونخ یونیورسٹی میں جولی کے طالب علموں میں سے ایک میکس پلانک تھا، جسے جان فلپ نے ۱۸۷۸ء میں نظریاتی طبیعیات میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ فزکس کے مضمون میں اب کچھ نہیں رکھا ، جو کچھ دریافت ہونا تھا ہو چکا۔اس مشورے کے با وجود، پلانک نے فزکس میں پڑھائی جاری رکھی اور اس کا بعد کا کام فزکس کی ایک جدید شاخ کوانٹم میکانکس کی دریافت کا باعث بنا۔ بعد کی زندگی میں پلانک نے لکھا : ''جب میں نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم شروع کی تو میں نے اپنے قابل احترام استاد فلپ وون جولی سے اپنے منتخب کردہ مطالعہ کے میدان فزکس کے حالات اور امکانات کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ اس نے میرے لیے طبیعیات کو ایک انتہائی ترقی یافتہ، تقریباً مکمل طور پر پختہ سائنس کے طور پر بیان کیا کہ توانائی کے تحفظ کے اصول کی دریافت کی اہم کامیابی کے ذریعے یہ جلد ہی اپنی حتمی مستحکم شکل اختیار کر لے گی۔ نظریاتی طبیعیات نمایاں طور پر اسی حد تک اپنی تکمیل کے قریب پہنچ رہی ہے جس طرح جیومیٹری صدیوں پہلے تھی۔'' "ایک سو پچاس سال پہلے اس وقت کے ایک معزز طبیعیات دان کا یہی نظریہ تھا۔" کہ فزکس مکمل ہو چکی ہے اور اب اس میدان میں کچھ کرنے کو نہیں رہ گیا ہے! فزکس کے مکمل ہونے کے خیال کا خاتمہ: بیسویں صدی کے شروع میں میکس پلانک انتھک محنت کے نتیجے میں انٹم تھیوری کےموجد قرار پائے۔فزکس میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہیں ۱۹۱۸ ء میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ پلانکس کونسٹینٹ h ، اب کوانٹم مکینکس کے اکثر فارمو لوں میں استعمال ہوتا ہے۔
خرافات نمبر۶۔۔۔جامد، غیر متحرک زمینی پلیٹوں کانظریہ بیسویں صدی کے اوائل میں میدان ارضیات تھا۔ اس وقت تک بڑے بڑے سائنسداں صدیوں سے ایک جامد، غیر متحرک زمینی پرت کےنظریہ پہ یقین رکھتے تھے۔ یعنی براعظم وہیں تھے جہاں وہ تھے، وقت کے آغاز سے ہی ایک ہی جگہ پر جمے تھے۔ ۔ اس زمانے میں دوسری صورت تجویز کرنا نہ صرف غلط تھا بلکہ یہ فکری کمی کی علامت بھی سمجھی جاتی تھی۔ اس میدان میں ایک جرمن ماہر موسمیات اور پولر ایکسپلورر، الفریڈ ویگنر نے قدم رکھا۔۔۔۱۹۱۲ءمیں، اس نے معزز ماہرین ارضیات کے سامنےتجویز پیش کی کہ براعظم اپنی پرانی جگہوں سے کھسکتے ہوئے موجودہ جگہ تک پہنچے ہیں۔ وہ پہلے ایک سپر براعظم میں اکٹھے تھے جسے پینگیا کہتے ہیں اور ایک منجمد سمندر پر آئس برگ کی طرح تیر رہے تھے۔۔۔ اس کے رد عمل میں صرف شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ اس کا جواب ایک حقارت آمیز ہنسی سے دیا گیا۔ ویگنر ایک قابل طنز و استہزء شخص ٹھہرا ۔ آخر وہ ایک ماہر موسمیات تھا کوئی ماہر ارضیات تو تھا نہیں ، اس لیے اس کے نظریے کو در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔امریکن فلاسوفیکل سوسائٹی کے صدر نے اس نظریہ کو سراسر لغو قرار دیا۔ بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں کے ماہرین ارضیات اس نظریے کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ئے۔ اُنہوں نے اُسے فریب خوردہ کہا، سیوڈو سائنٹسٹ گردانا، ایک ایسا آدمی جس کے خیالات گویا پریوں کی کہانی تھے۔ ویگنر کے پاس زبردست ثبوت تھے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحلی پٹی پہیلی کے ٹکڑوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہیں۔ اس نے دکھایا کہ مخلوقات جو کبھی بھی سمندر پار نہیں کر سکتی تھیں ان کے فوسل الگ الگ براعظموں میں پائے گئے ہیں۔ اس نے آرکٹک میں پائے جانے والے ااستوائی پودوں اور افریقہ کے صحراؤں میں برفانی اگلیشیر کے ثبوت پیش کیے۔ ثبوت سامنے موجود تھے، ۔ لیکن وہ طریقہ کار کی وضاحت نہیں کر سکا۔ کون سی طاقت اتنی طاقتور تھی کہ پورے براعظموں کو زمین پر دھکیل سکے؟ اس نے زمین کی گردشی قوتوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کیں، لیکن ریاضی کام نہیں کر سکی۔ اس کے حریف نے اس کمزوری کو پکڑ لیا۔ اسے عجیب و غریب اتفاقات کا مجموعہ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا؟ کئی دہائیوں تک، ویگنر کے نظریہء براعظمی بہاؤ کو سائنسی ناکامی کی مثال کے طور پر رکھا گیا۔ ان کا انتقال 1930 میں گرین لینڈ مہم کے دوران ہوا۔ جامد اور ساکن زمینی پلیٹوں کے نظریہ کا خاتمہ۔ ارضیات کی ہر درسی کتاب کو دوبارہ لکھا گیا۔ پھر دنیا ا جنگ عظیم دوئم کی طرف چلی گئی۔ اور سرد جنگ کی گہرائیوں میں، آبدوزوں نے ایک دوسرے سے چھپنے کے لیے سمندر کے فرش کا نقشہ بنانا شروع کیا۔ انہوں نے جو پا یا اس نےوہ سب کچھ بدل دیا۔ انہوں نے وسط بحر اوقیانوس کے رج کو دریافت کیا، جو سمندر کے بیچ میں چلتی ہوئی پانی کے اندر ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔ انہوں نے پایا کہ سمندری فرش اس رج سے باہر کی طرف پھیل رہا ہے، نئی کرسٹ بنا رہا ہے۔ انہوں نے چٹان میں مقناطیسی پٹی پائی، جو لاکھوں سالوں میں زمین کے مقناطیسی میدان کے الٹ جانے کا ایک بہترین ریکارڈ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سمندری فرش حرکت میں ہے۔اچانک، ویگنر کا طریقہ کار جو وہ واضح نہیں کر پایا تھا مل گیا۔۔ معلوم ہوا کہ براعظم سمندر کے اندربڑے پیمانے پر ٹیکٹونک پلیٹوں کے اوپر سوار ہیں جنہیں سمندری فرش کے ساتھ زمین کے مینٹل میں کنویکشن کرنٹ کے ذریعے انجن کی طرح دھکیلا اور کھینچا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی تک، براعظمی بہاؤ کی پلیٹ ٹیکٹونکس کا نظریہ ،جسےسراسر لغو گردانا گیا تھا ، دوبارہ جنم لے چکا تھا۔ ۔ ارضیات کی ہر درسی کتاب کو دوبارہ لکھا گیا۔الفریڈ ویگنر، جس کا تمسخر اڑایا گیا، وہ اب احمق نہیں رہا۔ وہ ایک نظریہ کا بانی تھا۔ ۔ خرافات نمبر ۷۔۔۔طب اور علاج۔۔۔سب سے زیادہ خرافات بیماریوں اور ان کے علاج میں پائے جاتے تھے اور بعض اب بھی موجود ہیں جراثیم کی دریافت سے پہلے، ڈاکٹر، فلسفی اور پادری وغیرہ بیماری کی وضاحت کئی محتلف طریقوں سے کرتے تھے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی منطق پیش کی کہ لوگ بیمار کیوں ہوتے ہیں اور ان کا علاج کیسے کیا جاسکتا ہے 1۔ بیماری مافوق الفطرت ، ناراض دیوتاؤں، بد روحوں، جادو ٹونے، اور اخلاقی وجوہ سے یا گناہوں سے لاحق ہوتی ہے۔ ۔علاج : ، جن اتارنا، قربانی، بھینٹ ، تعویذ، دیوتا کی عبادت ، دعا، اقرار گناہ وغیرہ ابتدائی دور 2۔چار جسمانی رطوبتیں کو مناسب تناسب میں ہونا چاہئے ؛ — خون، بلغم، پیلا پت، سیاہ پت — ان کا عدم توازن بیماری اور مزاج میں تبدیلی پیدا کرتا ہے علاج:۔ خون بہانا، صاف کرنا،، خوراک کا ضابطہ، ، جونک سے علاج۔، "گرم/سرد" یا "گیلے/خشک" خصوصیات کو متوازن کرنا۔ درمیانی دور 1۔ہیضہ، طاعون، ملیریا کا الزام گندی ہوا پر لگایا گیا تھا۔ علاج: وینٹیلیشن کو بہتر بنانا، دلدلوں کی نکاسی، بخور یا بندوق کا پاؤڈر جلانا، جڑی بوٹیاں ، شہری گٹروں میں اصلاحات۔ 2۔بعض بیماریاں پراسرار بیجوں یا زہروں کے ذریعے یا بے جان اشیاء کے ذریعے پھیلتی ہیں ۔ علاج: تنہائی، قرنطینہ، دھونی دینا ، زندہ مخلوق (بشمول بیماری کے ایجنٹ) ۔۔غیر جاندار گندگی سے پیدا ہو سکتے ہیں۔۔ جیسے کہ گوشت سے میگوٹس، گندے کپڑے میں " کپاس کے بیج" چوہوں میں بدل جاتے ہیں ، کیچڑ سے مینڈک اور مکھی وغیرہ پیدا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ارسطو اور 17 ویں صدی کے بہت سے فلسفیوں نے بھی اس کی توثیق کی۔ ۔۔ (کیونکہ اس وقت خورد بین نہیں ایجاد ہوئی تھی ۔۔ )
بیماریوں کے توہمات و خرافات کا خاتمہ پاسچر کے کام نے آخر کار 1864 میں ان خیالات کو غلط ثابت کر دیا۔لوئس پاسچر، جو 1822 سے 1895 تک زندہ رہے، دنیا کے مشہور مائکرو بایولوجسٹ ہیں۔ اسے بیماری کے جراثیمی نظریہ اور پاسچرائزیشن کے عمل کو ایجاد کرنے کا بڑے پیمانے پر سہرا دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اینٹی بایوٹک ایجاد ہوئیں اور جدید طبی طریقہء علاج نے جنم لیا۔ مزید یہ کہ ہمارے اس جدید دور میں تو اس وقت تحقیقات کی تیزی کی وجہ سے ہر تھوڑے دنوں کے بعد ایک نئی تحقیق آ جاتی ہے کہ پہلے فلاں بات غلط تھی اب یہ صحیح ہے، جیسے خون میں چکنائی کم کرنے کے لیے انڈے کی زردی کھانے پر پابندی اور بعد میں اس کی اجازت وغیرہ ۔ ویسے جب سے دنیا بنی ہے ،پتھر کے زمانے آج تک ہر دور ہی اپنے آپ کو جدید دور سمجھتا رہا ہے ۔ آج سے پانچ سو ، ہزار سالوں کے بعد جو دریافتیں اور ایجادات ہو چکی ہوں گی اس کی بنیاد پہ ہمارا زمانہ قدیم ، کم علم اور خرافات گردانا جائے گا۔ کچھ اس میںشک نہیں ۔
حرف آخر دنیوی فطرت کا علم ارتقائی ہے ۔ فطرت کا علم کسی کے لیئے حوالہ نہیں بن سکتا۔انسانی علم آخری طور پر قیاسی اور آ رائی ہو جاتا ہے۔ ہم خود حتمی علم نہیں حاصل کر سکتے۔تجربہ اور مشاہدہ غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ مجموعہء حقائق قیاسات کی طرف جاتا ہے۔ بار بار کے مشاہدات اور منطقی تجزیئے نئی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ سائنس کا علم قابلِ تصدیق نہیں ہے، یعنی صرف موجودہ آلات و شواہد کی روشنی میں قابل تصدیق ہے جو بعد میں بدل سکتا ہے۔یعنی سائنس کا علم اپنی آخری حد میں امکانی یا قیاسی ہے۔اور امکان خطا سے خالی نہیں ہے۔ میں مخلوق ہوں ، میں اپنا وجود میں آنا دیکھ سکتا۔ہوں ۔ نطفہ سے پرورش پا کر پیدائش تک کی تخلیق کا مشاہدہ مجھے مخلوق ثابت کرتا ہے ۔ تو میرا خالق بھی ہونا چاہیے ۔۔۔ میرا ڈی این اے میری شخصیت کا ایک پروگرام ہے ۔۔ اس کا پروگرامر بھی ہونا چاہئے۔۔۔۔منطقی طور پر عقل مجھے یہاں تک پہنچاتی ہے ۔ ۔یعنی مخلوق ہونا عقلی طور پر خالق کے ہونے کی توجیہ ہے ۔۔ جو ایک معقول اور قابلِ قبول توجیہ ہے ۔ اب دو ہی راستے ہیں: کائینات یا فطرت ہی خالق ہے۔یا ایک علیم و حکیم ہستی ہے جو فطرت کی بھی خالق ہے اور ہماری بھی خالق ہے ۔اس بات کو ماننے کے لئیے عقلی شواہد دیکھا پڑیں گے۔ جو اطمینان دلاتے ہیں ۔ اس کی آخری منزل قران ہے ۔ جسے سمجھنا ضروری ہو گا ۔ اس سے داخلی اطمینان حاصل ہوتا ہے جسے قرآن نور کہتا ہے۔
تفسیر قران کے سلسلے میں سید قطب لکھتے ہیں: "ہمیں کسی آیت پر اس طرح غور نہیں کرنا چاہئے کہ ہم پہلے اپنے ذہنوں میں کچھ اصول طے کرلیں ، کچھ عوامی اور سائنسی سوچوں کو قبول کرلیں اور ان موضوعات پر اپنے طور پر فیصلے کرلیں اور پھر آیات میں تاویل کریں بلکہ ہماری روش یہ ہونی چاہئے کہ ہم خالی الذین ہوکر قرآنی آیات سے نتائج اخذ کریں۔ ان آیات سے ایمان اور عقیدہ اخذ کریں اور ان آیات سے اپنی فکر اور اپنی سوچ اور اپنا ادراک اخذ کریں۔ اگر ان آیات میں کوئی بات طے شدہ ہو تو اسے طے شدہ سمجھیں ۔ یہ اس لئے کہ جس چیز کو ہم عقل انسانی سمجھتے ہیں اور قرآنی اور تاریخی اور کائناتی واقعات کو اس کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں یہ تو انسان کے محدود تجربات کا نتیجہ ہے اور نہایت غیر یقینی چیز ہے۔ یہ عقل اگرچہ ایک مطلق قوت ہے اور یہ انفرادی واقعات وتجربات کے اندر محدود نہیں ہے۔ بلکہ عقل ان انفرادی واقعات سے ماوراء ایک مجرد حقیقت ہے لیکن یہ مجرد عقل بھی بہرحال ہمارے محدود وجود کے اندر کی حقیقت ہے اور ہمارا وجود محدود اور مقید ہے۔ اصل وجود باری تعالیٰ کا ہے جو غیر محدود اور لاانتہا ہے۔ اور یہ قرآن اس اصل وجود کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ لہٰذا اصل حاکم وجود مطلق اور اس کا قرآن ہے۔ اور قرآن جو فیصلے کردے ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے اور اپنے عقلی فیصلے قرآن سے اخذ کریں۔"
|
|