صحافت کا مستقبل اور مصنوعی ذہانت کا چیلنج

برطانوی میڈیا انڈسٹری ایک بار پھر بڑے بحران سے دوچار ہے۔ پبلشر ریچ (Reach plc)، جو برطانیہ کے بڑے اخبارات جیسے دی ایکسپریس، دی مرر، دی ڈیلی اسٹار، مانچسٹر ایوننگ نیوز اور لیورپول ایکو شائع کرتا ہے، نے 8 ستمبر کو اپنے ادارتی ڈھانچے (ایڈیٹوریل اسٹرکچر) میں بڑی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔ اس عمل کے تحت 321 نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ ہے جبکہ بظاہر 135 نئی اسامیاں پیدا کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، یوں کاغذی حساب سے 186 نوکریاں بچائی جا سکیں گی۔ لیکن عملی طور پر یہ قدم 300 سے زائد صحافیوں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔
یہ فیصلہ نیشنل یونین آف جرنلسٹس (NUJ) اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کے مطابق صحافیوں پر تباہ کن ضرب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا میڈیا ادارے واقعی مالی مشکلات سے مجبور ہیں یا پھر یہ عالمی سطح پر تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت (AI) کی لہر کے دباؤ میں کیے جانے والے اقدامات ہیں؟
گزشتہ ایک دہائی میں برطانوی میڈیا کی آمدن کا بڑا ذریعہ پرنٹ ایڈورٹائزنگ تھا، جو اب تیزی سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ گوگل، فیس بک اور اب ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز اشتہارات کی زیادہ تر آمدن کھینچ لے گئے ہیں۔ ایسے میں پرنٹ اور آن لائن اخبارات کو اپنے مالی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ریچ پبلکیشن جیسے بڑے گروپس پہلے بھی کئی بار ری اسٹرکچرنگ کے ذریعے اخراجات کم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن اس بار معاملہ زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ اس میں براہِ راست انسانی وسائل، خصوصاً تجربہ کار صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
این یو جے کے کوآرڈینیٹر کرس مورلے نے درست کہا کہ پہلے ہی دباؤ کا شکار صحافیوں پر اس فیصلے کا نفسیاتی اثر بہت گہرا ہوگا۔ ایک طرف نوکریوں کا تحفظ ختم ہو رہا ہے، دوسری طرف جو لوگ باقی رہ جائیں گے ان پر کام کا بوجھ دوگنا ہو جائے گا۔
ہر بار کٹوتیوں کے نتیجے میں تجربہ کار صحافی ادارہ چھوڑ دیتے ہیں اور بچ جانے والے عملے کو بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے ادارتی معیار گرنے کا بھی خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایک صحافی کی محنت اور مشاہدہ کسی بھی مصنوعی ذہانت کے سسٹم سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، کیونکہ صحافت صرف خبروں کی ترسیل نہیں بلکہ تجزیہ، تحقیق اور انسانی احساسات کا امتزاج ہے۔
ریچ گروپ نے حالیہ برسوں میں اپنی پالیسی میں مصنوعی ذہانت کو نمایاں جگہ دی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق خبروں کی ایڈیٹنگ، ابتدائی مسودہ سازی اور حتیٰ کہ مواد کی تیاری میں بھی اے آئی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔این یو جے نے بارہا اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق ادارے میں اے آئی کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی جگہ مشینیں لیں گی، جو نہ صرف صحافیوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ خبر کی معیاری ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔یقیناً اے آئی تیز رفتاری سے مواد تیار کر سکتی ہے، لیکن یہ مواد انسانی فہم، اخلاقی معیار اور معاشرتی حساسیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کو ایک مشین کی بجائے ایک انسان کی ضرورت رہتی ہے۔
ریچ پبلکیشن کا یہ قدم محض ایک کمپنی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ عالمی میڈیا انڈسٹری کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکہ، یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک میں بھی میڈیا ہاؤسز اخراجات کم کرنے کے لیے صحافیوں کی تعداد گھٹا رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں صحافیوں کو اپنی بقا کے لیے نئی مہارتیں سیکھنا ہوں گی۔ ڈیجیٹل ٹولز، ڈیٹا جرنلزم اور اے آئی کے بنیادی اصولوں سے واقفیت ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ادارے اپنی پالیسی میں انسانی محنت کی قدر کو برقرار رکھیں گے یا پھر صرف کم خرچ اور زیادہ منافع کے پیچھے بھاگیں گے؟۔
صحافت کا بنیادی مقصد عوامی مفاد کے لیے معلومات فراہم کرنا ہے۔ اگر ادارے تجربہ کار صحافیوں کو کم کرکے اے آئی پر انحصار بڑھا دیں گے، تو اس کا براہِ راست اثر خبروں کی معتبریت پر پڑے گا۔ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ مواد میں تعصب، غلط معلومات یا یک طرفہ بیانیہ شامل ہوسکتا ہے، جسے بروقت پہچاننا مشکل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی موجودگی لازمی ہے تاکہ وہ مشینی آؤٹ پٹ کو انسانی زاویے سے پرکھ سکیں۔
ریچ پبلکیشن کی حالیہ پالیسی ایک ایسے دوراہے کی نشاندہی کرتی ہے جہاں صحافت کو اپنی بقا کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ مالیاتی دباؤ کے باوجود انسانی محنت کی قدر کریں اور تجربہ کار صحافیوں کو بچانے کے لیے متوازن حکمت عملی اپنائیں۔مصنوعی ذہانت سہولت فراہم کر سکتی ہے، لیکن یہ کسی بھی طور پر انسانی عقل، جذبے اور خبر کے پس منظر کو سمجھنے کی صلاحیت کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اگر میڈیا ادارے صرف کٹوتیوں اور مشینوں پر انحصار کرتے گئے، تو صحافت کا اصل مقصد۔ یعنی عوام کے لیے سچائی اور تحقیق پر مبنی معلومات فراہم کرنا۔ شدید متاثر ہوگا۔ریچ کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے، صحافیوں کو تحفظ دے اور ایک پائیدار لائحہ عمل اختیار کرے، ورنہ یہ فیصلہ نہ صرف برطانوی صحافت بلکہ عالمی میڈیا کے لیے بھی ایک خطرناک مثال ثابت ہو سکتا ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 44 Articles with 39385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.