مصنوعی ذہانت اور ذمہ دارانہ گورننس
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
مصنوعی ذہانت اور ذمہ دارانہ گورننس تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
مصنوعی ذہانت ہمارے دور کا ایک ناگزیر رجحان بن چکی ہے، جو ہماری پیداوار، زندگی اور حکمرانی کے طریقوں کو گہرائی سے تبدیل کر رہی ہے۔ماہرین اور صنعتی رہنماؤں کے نزدیک جیسے جیسے مصنوعی ذہانت تیزی سے صنعتوں اور روزمرہ زندگی کو بدل رہی ہے، اس کا مستقبل ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ذمہ دارانہ گورننس پر بھی منحصر ہوگا۔
مصنوعی ذہانت میں ایک اہم طاقت کی حیثیت سے چین نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے پندرہویں پنج سالہ منصوبے (2026-30) کے دوران بنیادی تحقیق اور کلیدی ٹیکنالوجیوں میں پیشرفت کو ترجیح دے گا، صنعتی ترقی کو فروغ دے گا اور حقیقی دنیا کے استعمال کے منظرناموں کو وسعت دے گا۔
چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ اختراع کو ذمہ داری کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا لازم ہے ، جس میں مضبوط گورننس، قابل اعتماد ڈیٹا معیار اور پیشہ ورانہ مہارت جیسے عوامل کی حمایت کلیدی عناصر ہیں۔
جوں جوں ٹیکنالوجی ورچوئل دنیا سے حقیقی دنیا کے استعمال میں آ رہی ہے، مصنوعی ذہانت کا تحفظ ایک مرکزی موضوع بن گیا ہے بلکہ ماہرین تو مصنوعی ذہانت کی حفاظت کو ترقی کی زندگی قرار دیتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جس تیز رفتاری سے مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل دنیا سے فزیکل دنیا میں پھیل رہی ہے، اس کے خطرات زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا کو نہ صرف تکنیکی کمزوریوں کا سامنا ہے، بلکہ اخلاقیات، رازداری اور نظامی خطرات بھی لاحق ہیں۔
اس ضمن میں چین کی تازہ ترین پالیسی اپ گریڈ "مصنوعی ذہانت حفاظتی گورننس فریم ورک 2.0" کو رد عمل کی بجائے فعال گورننس کی جانب تبدیلی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ ستمبر میں جاری کیا گیا یہ فریم ورک شفافیت، ڈیٹا تحفظ اور ایک ایسے باہمی تعاون پر مبنی حکمرانی ماڈل پر زور دیتا ہے جو سرحدوں، شعبوں اور صنعتوں کو پار کرتا ہے۔
چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اعلیٰ سطح کا تحفظ اختراع کو محدود نہیں کرتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ جب تحفظ کو مصنوعی ذہانت کے نظام کی ہر پرت میں شامل کر دیا جائے تو پائیدار، اعلیٰ معیار کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
بلاشبہ، مصنوعی ذہانت پہلے ہی تمام شعبوں میں پیداواری اور تخلیقی عوامل کو تبدیل کر رہی ہے اور مصنوعی ذہانت ماڈلز کو حقیقی دنیا کے استعمال میں شامل کرنا ایک بڑھتا ہوا عالمی اتفاق رائے بن گیا ہے۔مینوفیکچرنگ میں، مصنوعی ذہانت سے چلنے والی اصلاحات نے کارکردگی میں زبردست اضافہ کیا ہے؛ دواسازی میں، اس نے نئی دواؤں کی ترقی کے سائیکل کو نصف کر دیا ہے؛ اور تعلیم میں، مصنوعی ذہانت کے لارج ماڈلز کے باہمی عمل نے ذاتی نوعیت کی تعلیم کو نئی شکل دی ہے۔
جیسے جیسے مصنوعی ذہانت اہم نظاموں میں گہرائی سے شامل ہو رہی ہے، سائبر سیکیورٹی کے ماہرین نئی ابھرتی ہوئی کمزوریوں کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔اس تناظر میں مصنوعی ذہانت کی حفاظت ، ڈیجیٹل معیشت کا نیا محاذ ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ہر چیز کو پروگرام کیا جا سکتا ہے، نقل کیا جا سکتا ہے، پیدا کیا جا سکتا ہے اور مربوط کیا جا سکتا ہے ، اور یہ مصنوعی ذہانت کی طاقت بھی ہے اور اس کی کمزوری بھی ۔
چنانچہ اس صورت حال میں "مصنوعی ذہانت پلس حفاظت" کی دوہری حکمت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، جو مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی حفاظت کے لیے خود مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے۔ٹیکنالوجی سے آگے، ماہرین پائیدار مصنوعی ذہانت کے مستقبل کی تشکیل میں مشترکہ گورننس اور عالمی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
سو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ڈیجیٹل تبدیلی ناقابل واپسی ہے ، بالکل حیاتیاتی ارتقا کی طرح،یہ سمجھنا ہو گا کہ حقیقی مسئلہ خود اوزار نہیں ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم انہیں کیسے استعمال کرتے ہیں۔
|
|