جیسلمیر کا "راج کماری رتنا وتی گرلز اسکول" فن تعمیر کا شاہکار

یہ عمارت ایک طرف بچیوں کو تعلیم کا مرکز فراہم کر رہی ہے تو دوسری طرف دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ جدیدیت اور روایت ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ باہم ملاپ سے ہی پائیدار ترقی ممکن ہے۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
انسانی تاریخ میں فنِ تعمیر ہمیشہ سے صرف رہائش یا تحفظ کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ تہذیب، ماحول اور علم کا آئینہ دار بھی رہا ہے۔ ہر خطہ اپنی آب و ہوا اور وسائل کے مطابق ایسی عمارتیں تخلیق کرتا رہا ہے جو نہ صرف رہنے سہنے کے قابل ہوں بلکہ اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوں۔ بھارت کے صوبہ راجستھان کے ضلع جیسلمیر میں تعمیر ہونے والا راج کماری رتنا وتی گرلز اسکول اسی روایت کا ایک شاندار تسلسل ہے، جو آج دنیا بھر کے ماہرینِ فنِ تعمیر اور ماہرینِ ماحولیات کے لیے تحقیق کا موضوع بن چکا ہے۔
جیسلمیر کو "سنہری شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی ریت اور پتھر زردی مائل سنہری ہیں۔ یہ علاقہ تھر کے ریگستان میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں درجۂ حرارت اکثر 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ سخت دھوپ، خشک ہوائیں اور پانی کی قلت یہاں کی زندگی کو کٹھن بنا دیتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے کس طرح اس ماحول میں فعال رہ سکتے ہیں؟ یہی وہ سوال تھا جس کا جواب نیویارک کی مشہور فرم Diana Kellogg Architects نے اپنے ڈیزائن کے ذریعے دیا۔
اس اسکول کو روایتی چوکور یا مستطیل کے بجائے بیضوی شکل میں ڈیزائن کیا گیا۔ یہ بیضوی ساخت محض جمالیاتی نہیں بلکہ سائنسی بنیاد رکھتی ہے۔ ریگستان میں چلنے والی ہوائیں تیز اور بے رحم ہوتی ہیں۔ بیضوی شکل ان ہواؤں کو نرم کرتی ہے، ان کی رفتار کو توڑ کر عمارت کے اندر ایک متوازن فضا پیدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سورج کی حرکت کے حساب سے بیضوی ڈیزائن دھوپ کو سیدھا اندر داخل نہیں ہونے دیتا بلکہ سایہ اور روشنی میں توازن رکھتا ہے۔
اس اسکول کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے تعمیری مواد میں ہے۔ یہ عمارت جیسلمیر کے مقامی سینڈ اسٹون سے بنائی گئی ہے۔ سینڈ اسٹون یہاں کی صدیوں پرانی عمارتوں، قلعوں اور حویلیوں میں استعمال ہوا ہے اور آج بھی یہ سب قائم و دائم ہیں۔ اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ تھرمل ماس کا کام کرتا ہے یعنی دن میں گرمی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور رات کو آہستہ آہستہ خارج کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ دن میں عمارت نسبتاً ٹھنڈی اور رات کو معتدل رہتی ہے۔ یہی وہ فطری ٹیکنالوجی ہے جسے جدید معمار آج "Passive Cooling" کا نام دیتے ہیں۔
مقامی کاریگروں نے اس پتھر کو تراش کر بھاری بھرکم اینٹوں کی شکل دی، اور ان ہی اینٹوں سے اسکول کی 15 انچ تک موٹی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ کاریگروں کی مہارت صرف پتھر جوڑنے تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے ان پر باریک جالی دار ڈیزائن بھی تخلیق کیے۔ یہ جالیاں دھوپ کو چھان کر روشنی دیتی ہیں، سایہ پیدا کرتی ہیں اور ہوا کے گزرنے کا راستہ بھی کھلا رکھتی ہیں۔
اسکول کے اندرونی ڈیزائن میں اونچی چھتیں رکھی گئی ہیں تاکہ گرم ہوا اوپر اٹھ کر باہر نکل جائے۔ اوپر روشن دان اور کلیر اسٹوری ونڈوز ہیں جو قدرتی وینٹی لیشن کو ممکن بناتے ہیں۔ مرکزی صحن نہ صرف سماجی و تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز ہے بلکہ یہ عمارت کے مائیکرو کلائمیٹ کو بھی بہتر کرتا ہے۔ صحن میں سایہ، ہوا اور درجۂ حرارت کا توازن برقرار رہتا ہے۔
یہ اسکول محض روایتی فنِ تعمیر کی تقلید نہیں بلکہ جدید تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ چھت پر نصب سولر پینلز عمارت کو توانائی فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی سایہ ڈال کر نیچے کے حصے کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے واٹر ہارویسٹنگ کا نظام بنایا گیا ہے تاکہ قیمتی پانی ضائع نہ ہو۔
یوں یہ عمارت ایک طرف بچیوں کو تعلیم کا مرکز فراہم کر رہی ہے تو دوسری طرف دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ جدیدیت اور روایت ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ باہم ملاپ سے ہی پائیدار ترقی ممکن ہے۔
اس اسکول کے بارے میں یہ دعویٰ عام ہے کہ باہر 50 ڈگری ہو تو اندر صرف 18 سے 20 ڈگری رہتا ہے۔ اگرچہ یہ بیان کچھ مبالغہ آمیز ہے، لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ اندرونی درجۂ حرارت باہر کے مقابلے میں 6 سے 8 ڈگری کم رہتا ہے۔ یہ فرق ریگستانی ماحول میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ کم از کم اتنی ٹھنڈک فراہم کرتا ہے کہ کلاس رومز میں بغیر اے سی کے بھی تدریس ممکن ہو سکے۔
راج کماری رتنا وتی اسکول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنی مقامی روایات کو بھول کر محض جدید مشینوں کے محتاج نہ بنیں۔ پاکستان کے شمالی اور جنوبی خطے، خاص طور پر سوات، ملتان اور تھر جیسے علاقوں میں ہم بھی یہی ماڈل اپنا سکتے ہیں۔ سوات میں سنگِ مرمر اور پتھر کی فراوانی ہے۔ اگر وہاں کے اسکولوں اور گھروں کو اسی اصول پر بنایا جائے تو بجلی کے بلوں میں کمی اور ماحول کے تحفظ دونوں ممکن ہیں۔جیسلمیر کا یہ اسکول صرف تعلیم کی عمارت نہیں بلکہ صحرا کے قلب میں امید کا چراغ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر انسان اپنی زمین، ماحول اور روایت سے ہم آہنگ ہو کر سوچے تو سخت سے سخت حالات میں بھی ٹھنڈک اور سکون تراش سکتا ہے۔ آج کے معماروں اور پالیسی سازوں کے لیے یہ ایک زندہ سبق ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے قدرت کے ساتھ ہم آہنگی سب سے بڑی ٹیکنالوجی ہے۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 156 Articles with 96676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.