پنشن کا بوجھ یا سہولت؟ ای۔پنشن سسٹم ایک نیا آغاز

خیبرپختونخوا حکومت نے ایک بار پھر ڈیجیٹل گورننس کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ”احساس ای۔پنشن سسٹم“ کے اجرائکی منظوری دے دی ہے، جو یکم جنوری 2026 سے نافذ العمل ہوگا۔ بظاہر یہ ایک انتظامی فیصلہ ہے، لیکن اس کے اثرات براہ راست لاکھوں سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں پر پڑنے والے ہیں۔آج تک پاکستان میں پنشن کا نظام زیادہ تر کاغذی فائلوں اور دفتر در دفتر بھاگ دوڑ پر مشتمل رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ لینے والا ملازم اکثر اپنے آخری دنوں میں سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اسے پنشن کیس کے لیے مہینوں دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ کبھی کسی افسر کی دستخط باقی رہتی ہے، کبھی کسی آفس میں فائل دب جاتی ہے، اور کبھی حساب کتاب کی غلطیوں سے نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

ای۔پنشن سسٹم اسی پرانے بوجھ کو ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اس نظام کے تحت ملازم کو ریٹائرمنٹ سے چھ ماہ قبل صرف ایک سادہ ڈیجیٹل فارم بھرنا ہوگا۔ تمام ضروری کاغذات اسکین کرکے آن لائن اپ لوڈ کیے جا سکیں گے۔ اس کے بعد سسٹم خود بخود متعلقہ حکام کے لیے ٹائم باونڈ ٹاسکس تیار کرے گا۔ اس پورے عمل میں کوئی بھی فزیکل فائل یا کاغذ استعمال نہیں ہوگا۔صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ای۔پنشن ڈیش بورڈ مکمل پیپر لیس ورک فلو پر مبنی ہوگا۔ ویری فکیشن سے لے کر منظوری تک سب کچھ ڈیجیٹل طریقے سے ہوگا۔ سسٹم خودکار طریقے سے ریٹائرمنٹ آرڈر، پنشن پیپرز اور پنشن پیمنٹ آرڈر تیار کرے گا۔ سب کچھ ڈیجیٹل دستخط شدہ ہوگا اور قانونی طور پر قابل قبول تصور کیا جائے گا۔

اس اقدام سے پنشن کا پراسیس ٹائم جو پہلے مہینوں پر محیط ہوتا تھا، اب دو سے چار ہفتوں تک محدود ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ اس نظام سے پنشنرز کو دفاتر کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے۔یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا ای۔پنشن سسٹم کا اجراءکرنے والا ملک کا پہلا صوبہ ہوگا۔ یہ اعزاز معمولی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے اس نئی تبدیلی کو جذب کرنے کے لیے تیار ہیں؟

پاکستان میں ڈیجیٹل نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ نیت اچھی ہوتی ہے مگر عملی نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ کبھی سرور کام نہیں کرتا، کبھی انٹرنیٹ کی سست رفتار عوام کو تنگ کرتی ہے، اور کبھی بیوروکریسی خود پرانے طریقے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایسے میں یہ نظام بھی اگر صرف کاغذوں اور کانفرنس رومز کی حد تک محدود رہا تو یہ ایک اور "منصوبہ" بن کر رہ جائے گا۔ پنشن کا نظام ہمیشہ سے بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی سب سے بڑی شکایت یہی رہی کہ ان کا حق انہیں آسانی سے نہیں ملتا۔ بعض اوقات تو رشوت دیے بغیر فائل آگے نہیں بڑھتی۔ اگر ای۔پنشن سسٹم واقعی وہی ہے جو بتایا جا رہا ہے تو یہ بیوروکریسی کی اجارہ داری کو کمزور کرے گا اور عوامی اعتماد میں اضافہ کرے گا۔ مگر یہی نقطہ سب سے بڑی مزاحمت بھی لا سکتا ہے، کیونکہ پرانے نظام میں کئی ایسے "فائدے" تھے جو اب ختم ہو جائیں گے۔

ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پنشن کے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے بھی کوئی منصوبہ رکھتی ہے؟ پاکستان میں پنشن اخراجات کا حجم ہر سال بڑھ رہا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق یہ بجٹ پر براہ راست بوجھ ڈال رہا ہے۔ ای۔پنشن سسٹم شفافیت اور سہولت ضرور دے گا، مگر کیا یہ مالی دباو کو کم کرے گا؟ یا یہ صرف ادائیگی کو تیز اور آسان بنانے کا ایک طریقہ ہے؟وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بارہا کہا ہے کہ ان کی حکومت عمران خان کے وڑن کے مطابق صوبے کو ”ڈیجیٹل خیبرپختونخوا“ بنانا چاہتی ہے۔ یہ ای۔پنشن سسٹم اسی وڑن کی ایک کڑی ہے۔ اس سے پہلے صوبائی حکومت 36 مختلف عوامی خدمات کو آن لائن کر چکی ہے اور باقی خدمات کو بھی اسی سمت لے جانے کے دعوے کر رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں سیاست اکثر دعووں اور اعلانات تک محدود رہی ہے، لیکن اگر یہ نظام بروقت اور شفاف طریقے سے نافذ ہوتا ہے تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا کریڈٹ ہوگا۔ریٹائرڈ ملازمین اس خبر کو ایک بڑی خوشخبری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ نظام صحیح چل پڑا تو انہیں وہ کٹھن دن نہیں دیکھنے پڑیں گے جب پنشن کے چند ہزار روپے کے لیے انہیں دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ تاہم عوام کے خدشات بھی اپنی جگہ ہیں۔ اگر یہ نظام بیوروکریسی کی ہچکچاہٹ یا ٹیکنیکل مسائل کی نذر ہو گیا تو پھر یہ ایک اور "ناکام اصلاحات" کی کہانی بن جائے گی۔

ای۔پنشن سسٹم ایک انقلابی قدم ہے، لیکن انقلابات صرف اعلانات سے نہیں آتے۔ ان کے لیے سخت محنت، ٹیکنیکل تیاری اور سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے پاس اب ایک موقع ہے کہ وہ پنشن کے پرانے بوسیدہ نظام کو تاریخ کا حصہ بنا کر ایک شفاف اور تیز رفتار نظام متعارف کروائے۔اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو نہ صرف سرکاری ملازمین کو سہولت ملے گی بلکہ یہ پاکستان میں ڈیجیٹل گورننس کی ایک مثال بھی قائم کرے گا۔ اور اگر ناکام ہوا تو یہ ایک اور "اچھا اعلان" کہلائے گا، جسے عوام یاد نہیں رکھیں گے۔

 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 773 Articles with 628099 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More