گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کےلیے امید کی کرن
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, India)
گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کےلیے امید کی کرن
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
فلسطین کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم، قبضے اور خونریزی کا میدان بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر غزہ کے محصور عوام مہینوں سے بھوک، پیاس، ادویات کی کمی اور روزانہ کی بمباری کے کربناک حالات برداشت کر رہے ہیں۔ لاکھوں معصوم جانیں عالمی سیاست کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ایسے وقت میں دنیا کے مختلف خطوں، مختلف نسل ورنگ اور مذاہب و ادیان سے تعلق رکھنے والے انسانیت کے علمبردار اکٹھے ہوئے اور انھوں نے یہ پیغام دیا کہ عوام اب بھی اپنی انسانی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ اسی سوچ کا عملی اظہار "گلوبل صمود فلوٹیلا" کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کی روانگی: اسپین کے بندگارہی شہر بارسلونا سے یکم ستمبر 2025 کو گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ کے لیے روانہ ہوا۔ اس بحری بیڑے میں مختلف ممالک کے سیکڑوں کارکنان شامل ہیں۔ اس قافلے کا دوسراحصہ تیونس کے سیدی بوسعید بندرگاہ سے روانہ ہونا ہے؛ مگر موسم کی خرابی کی وجہہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اب یہ قافلہ دس ستمبر 2025 کو روانہ ہوگا، جو بحیرۂ روم میں، ایک ساتھ جا ملے گا جو پہلے سے اسپین اور اٹلی سے روانہ ہوچکے ہیں۔ جس طرح اٹلی اور اسپین والے قافلے میں درجنوں یورپی ممالک کے کارکنان سوار ہیں، اسی طرح تیونس والے قافلے میں درجنوں افریقی اور عرب ممالک: تیونس، ساؤتھ افریقہ، الجزائر، لیبیا، مراکش،موریتانیا،قطر، بحرین،کویت ، عمان،ملیشیا، پاکستان، ترکی وغیرہ کے کارکنان سوار ہوں گے۔ مجموعی طور پر اس قافلے میں تقریبا ستّر جہاز اور کشتیاں شامل ہیں۔ اس قافلے میں تقریبا 44 ممالک کے ڈاکٹرز، اداکار، فنکار، پارلیمانی ارکان، انسان دوست، ملاح اور سماجی کارکنان شریک ہیں۔ یہ قافلہ اپنے ساتھ غذائی اجناس، ادویات، پینے کا صاف پانی، طبی آلات اور دوسری چیزوں کے ساتھ جا رہا ہے۔ اس قافلے کے اہم مقاصد: غزہ پر عائد اسرائیل کے غیر قانونی محاصرے کو توڑنا، غزہ کی امداد کے لیے انسانی راہداری قائم کرنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کا خاتمہ کرنا ہیں۔ منتظمین کے مطابق 15/ستمبر 2025 تک اس قافلہ کے غزہ پہنچنے کی توقع ہے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کا انتظام: گلوبل صمود فلوٹیلا مہم چار بڑی جماعتوں کے زیر انتظام ہے، جو پہلے بھی غزہ کے لیے زمینی اور بحری اقدامات میں شامل رہی ہیں۔ وہ چار گروپ یہ ہیں۔ گلوبل موومنٹ ٹو غزہ جو ایک عوامی تحریک ہے جس نے غزہ کی حمایت اور محاصرے کو توڑنے کے لیے عالمی یکجہتی کی کارروائیاں کی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا اتحاد جو گذشتہ پندرہ سالوں سے بحری مشنز میں تجربہ رکھنے والا گروپ ہے۔مغرب صمود فلوٹیلا شمالی، افریقہ میں واقع ایک اقدام جو فلسطینی کمیونٹی کی مدد اور یکجہتی کے لیے امدادی مشنز انجام دیتا ہے۔ صمود نسنتارا، یہ ملیشیا اور دیگر آٹھ ممالک کی عوامی قیادت کا ایک قافلہ، جو غزہ کے محاصرے کو توڑنے اور گلوبل ساؤتھ ممالک کے درمیان یکجہتی پیدا کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔
خطرےاور دھمکیاں: "گلوبل صمود فلوٹیلا" کو شدید خطرات اور دھمکیوں کا سامنا بھی ہے۔ یہ بیڑا سمندری طوفانوں اور شدید موسمی حالات کے باوجود اپنی منزل کی جانب بڑھ چکا ہے؛ لیکن اس سے بھی بڑا خطرہ قابض اسرائیلی حکومت کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ فلوٹیلا کے کارکنان کو "دہشت گرد" اور "جنگی مجرم" کے طور پر تصور کیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی؛ تو بیڑے کو بزور طاقت روکا جا سکتا ہے۔ یہ دھمکی نہ صرف اس اقدام کی سلامتی کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے؛ بلکہ عالمی انسانی حقوق کے معیارات اور بین الاقوامی قوانین کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ کسی بھی پرامن امدادی بیڑے کو روکنا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس پر عالمی رائے عامہ کو فوری ردّعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ فلوٹیلا کے کارکنان کے لیے یہ محض ایک بحری سفر نہیں؛ بلکہ ایک جسمانی خطرات کے باجود انصاف اور انسانی بیداری کے لیے اٹھایا جانے والا جراتمندانہ قدم ہے۔
عالمی شخصیات کی شمولیت: اس گلوبل صمود فلوٹیلا کی اہمیت میں سب سے زیادہ اضافہ اس وقت ہوا جب دنیا کے معروف اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات نے اس اقدام میں شرکت کی۔ ان کی شمولیت نے نہ صرف اس فلوٹیلا کو بین الاقوامی توجہ دلائی؛ بلکہ ایک مضبوط اخلاقی اور انسانی پیغام بھی دیا کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا ناقابل قبول ہے۔ اس بیڑےمیں شامل کچھ اہم شخصیات کے نام یہ ہیں۔ گریٹا تھنبرگ، سویڈن کی مشہور ماحولیاتی کارکن ہیں، جو اس سے پہلے میڈلین بحری جہاز سے امداد لے کر، غزہ جارہی تھی؛ جب کہ اسرائیل نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اغوا کرلیا تھا۔ سوزان سارینڈن، یہ ایک امریکی نامور اداکارہ اور سماجی کارکن ہیں، جو انسانی حقوق کے دفاع میں سرگرم رہی ہیں۔ لیام کیننگھم، یہ ایک آئرش اداکار اور سماجی کارکن ہیں، جو عالمی سطح پر جانے جاتے ہیں۔ ایڈوارڈ فرنانڈیز، یہ ایک ہسپانوی رکن پارلیمان ہیں، جو انسانی حقوق کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ آدا کولاو، بارسلونا کی سابق میئر ہیں، جنھوں نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سماجی انصاف کے لیے کام کیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کے پوتے، منڈیلا منڈیلا بھی تیونس سے اس قافلہ میں شامل ہوچکے ہیں۔
ان شخصیات کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں جاری نسل کشی پر عالمی خاموشی کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ان کی شرکت محض ایک علامتی احتجاج نہیں؛ بلکہ ایک اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے، جو دنیا کے سامنے یہ پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہر فرد پر فرض ہے۔ یہ اقدام اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جب عالمی شہرت یافتہ افراد مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؛ تو یہ نہ صرف فلسطین کے مسئلے کو عالمی توجہ کا مرکز بناتا ہے؛ بلکہ انسانی ضمیر کو جگانے اور انصاف کی آواز بلند کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
عالمی اداروں اور عوامی تحریکوں کی حمایت: "گلوبل صمود فلوٹیلا" کئی عالمی اور انسانی حقوق کے اداروں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ اس اقدام کو صرف ایک امدادی بیڑے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا؛ بلکہ اسے عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے امتحان کے طور پر پرکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے واضح مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل بیڑے کو محفوظ راستہ فراہم کرے اور غزہ کے عوام تک امداد پہنچنے دی جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بیڑے کو روکنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی ہوگی۔ عالمی عدالت انصاف پہلے ہی غزہ کے لیے محفوظ انسانی راہداریوں کے قیام کا مطالبہ کر چکی ہے، اس لیے یہ فلوٹیلا اس عدالتی موقف کو مزید تقویت دیتا ہے۔
ادارہ جاتی سطح پر حمایت کے ساتھ ساتھ عوامی ردعمل بھی نہایت اہم رہا۔ یورپ، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں متعدد سماجی اور عوامی تنظیموں نے احتجاجی مظاہروں، علامتی بحری ریلیوں اور انسانی زنجیروں کے ذریعے اس فلوٹیلا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان سرگرمیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں؛ بلکہ پوری دنیا کے عوام کے لیے ایک انسانی کاز بن چکا ہے۔ یہ حمایت اس امر کی علامت ہے کہ اگرچہ عالمی سیاست طاقت کے توازن کے گرد گھومتی ہے؛ مگر ادارے اور عوامی تحریکیں مظلوموں کی آواز کو عالمی ایجنڈے پر زندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
انسانی ضمیر کی صدا: اگرچہ یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ بیڑہ اپنی منزل تک پہنچ سکے گا یا نہیں؛ لیکن اس کی علامتی اہمیت اپنی جگہ بہت بڑی ہے۔ یہ قافلہ غزہ کے محصور و مظلوم عوام کے لیے امداد لے جانے سے زیادہ دنیا کے سامنے فلسطین کے مسئلے کو دوبارہ اجاگر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس نے عالمی طاقتوں کی وہ منافقت برہنہ کر دی ہے جو ایک طرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے نعرے لگاتی ہیں؛ مگر دوسری طرف معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ٹوٹنے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ یہ فلوٹیلا دراصل انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی صدا ہے، جو یہ پیغام دیتی ہے کہ ظلم اور نسل کشی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
یورپی بندرگاہی مزدوروں کا سخت پیغام: یورپی بندرگاہی مزدوروں نے اسرائیل کو سخت پیغام دیا ہے کہ اگر اُس نے گلوبل صمود فریڈم فلوٹیلا کے قریب آنے کی کوشش بھی کی؛ تو سمندر کو ایک ناقابلِ عبور دیوار میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ یہ ایک سنجیدہ اور منظم اعلان ہے، جس کا ماضی میں کئی بار مظاہرہ ہو چکا ہے: یونان، اٹلی، اسپین اور دیگر ممالک کے مزدوروں نے صہیونی جہازوں کا بائیکاٹ کیا اور کئی دن تک انھیں یورپی ساحلوں پر بے یار ومددگار رکنا پڑا۔ اب صورتحال اس سے بھی زیادہ حساس ہے۔ فریڈم فلوٹیلا غزہ کے محصور عوام کے لیے زندگی اور انسانی حقوق کا ایک قافلہ ہے۔ اگر اسرائیل اس پر حملہ آور ہوتا ہے؛ تو یورپی بندرگاہی مزدور پورے بحیرۂ روم کو مزاحمتی قلعہ میں بدل دیں گے، جس سے تل ابیب کی تجارتی اور عسکری رسائی شدید متاثر ہوگی۔ اسرائیل کے جہاز یورپ کی کسی بندرگاہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے، چاہے وہ تجارتی ہوں یا عسکری؛ جب کہ اسرائیل کی برآمدات اور درآمدات کا بڑا حصہ بحری راستوں کے ذریعے ہوتا ہے۔
استقامت کی نئی داستان: یہ گلوبل صمود فلوٹیلا ایک صدا ہے جو جنگ، نسل کشی اور عالمی خاموشی کے مقابل بلند ہوئی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ صمود اور استقامت میں وہ سب شامل ہیں جو دنیا بھر سے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ قافلہ یاد دلاتا ہے کہ مزاحمت صرف میدانِ جنگ میں لڑنے کا نام نہیں؛ بلکہ وہ بھی مزاحمت ہے جب لوگ اپنی آرام دہ زندگیوں کو ترک کر کے سمندر کی تند و تیز موجوں میں اترتے ہیں اور مظلوموں کی حمایت میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہ داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ استقامت کبھی سرحدوں میں قید نہیں ہوتی، نہ زبانوں اور رنگوں سے محدود رہتی ہے۔ جب ایک ماحولیاتی کارکن، ایک اداکار، ایک سیاست دان اور ایک عام شہری ایک ہی کشتی پر سوار ہو کر ظالم کے مقابل کھڑے ہوں؛ تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ انصاف اور آزادی کی جدوجہد ایک مشترکہ انسانی فريضہ ہے۔ یہی استقامت ہے جو غزہ کے ملبے سے اٹھنے والی چیخوں کو نیویارک، بارسلونا، جوہانسبرگ، تونس اور جکارتہ تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ قافلہ اس بات کی علامت ہے کہ صمود کا سفر رکنے والا نہیں۔
فلسطین پوری انسانیت کا مسئلہ ہے: "گلوبل صمود فلوٹیلا" اس حقیقت کا اعلان ہے کہ فلسطین پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ یہ قافلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظالم کی طاقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی اور نہ ہی مظلوم کی چیخیں صدیوں تک دبائی جا سکتی ہیں۔ آج اگر دنیا کے حکمران طبقے اپنے مفادات کی خاطر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں؛ تو بھی عوامی ضمیر جاگ رہا ہے اور دنیا کے مختلف خطوں سے اٹھنے والی یہ لہریں مل کر ایک عالمی طوفان بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ فلوٹیلا ایک علامت ہے کہ ابھی دنیا مکمل طور پر اندھیروں میں گم نہیں ہوئی۔ ابھی بھی ایسی آوازیں ہیں جو قابض کی سنگینوں کے سامنے بھی حق گوئی کا عَلم بلند کرنے سے نہیں گھبراتیں۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اسرائیل بزور طاقت اس بیڑے کو اپنی منزل تک نہ پہنچنے دے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر دیا ہے اور فلسطینی عوام کی قربانیوں کو عالمی انصاف، انسانی حقوق اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ یہ فلوٹیلا محض ایک سمندری سفر نہیں؛ بلکہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونے والی ایک حقیقت ہے، جو آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ جب عالمی ضمیر سو رہا تھا؛ تب بھی کچھ انسان زندہ تھے، جو مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ظالم کو للکارنے کی جرأت رکھتے تھے۔ ••••
|
|