عالمی گورننس سے جڑے مسائل کا چینی حل
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
عالمی گورننس سے جڑے مسائل کا چینی حل تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ دہائیوں میں معاشی عالمگیریت نے ممالک کے درمیان باہمی انحصار کو گہرا کیا ہے اور اربوں لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ تاہم، امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے، اور افریقہ جیسے خطوں میں غربت برقرار ہے۔دہشت گردی، مہاجرین کے بحران، وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ، بار بار جیو پولیٹیکل تنازعات، شدید غربت اور موسمیاتی تبدیلی تیزی سے نمایاں چیلنجز بنتے جا رہے ہیں۔ایسے میں کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی تنہا ان تمام چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے۔البتہ صرف عالمی حکمرانی کو مضبوط بنا کر ہی انسانیت حقیقی معنوں میں ایک کشتی پر سفر کر سکتی ہے۔
اس تناظر میں ،چین کی جانب سے حال ہی میں پیش کردہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو (جی جی آئی) نے عالمی سطح پر تیزی سے توجہ حاصل کی ہے، جسے مبصرین نے عالمی چیلنجز کے لیے بیجنگ کا تازہ ترین اور بروقت جواب اور ایک منصفانہ اور زیادہ جامع بین الاقوامی نظام کی تعمیر کے لیے اپیل قرار دیا ہے۔
اس اقدام میں پانچ بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے جن میں خود مختاری کی مساوات پر عمل کرنا، بین الاقوامی قانون کی پابندی کرنا، کثیرالجہتی پر عمل کرنا، عوام پر مرکوز نقطہ نظر کی وکالت کرنا اور ٹھوس اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا ، شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو کا آغاز ، آج کے عالمی چیلنجز کی فوری ضرورت اور بین الاقوامی امور میں ابھرتی ہوئی مارکیٹس اور گلوبل ساؤتھ ممالک کے بڑھتے ہوئے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ بحرانوں کے باہمی اثرات اور یکطرفہ پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پس منظر میں، ایس سی او اور برکس جیسے فورمز اس اقدام کو آگے بڑھانے اور گلوبل ساؤتھ کی آواز کو مضبوط بنانے کے لیے فطری پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو اس وقت جغرافیائی سیاسی کشیدگی، معاشی غیر یقینی صورتحال، علاقائی تنازعات اور دیگر بڑھتے ہوئے عالمی بحرانوں کے حل کا بہترین فارمولہ پیش کرتا ہے۔
اس وقت، بعض خطوں میں یکطرفہ پسندی کے نقطہ نظر کو تقویت ملی ہے، جس کے ساتھ یکطرفہ بالادست رویے بھی نمایاں ہو رہے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی آرڈر کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ان بحرانوں نے مجموعی طور پر عالمی حکمرانی کے نظام میں گہرے خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔موجودہ عالمی حکمرانی کے نظام کے تین بنیادی مسائل کو دیکھا جائے تو گلوبل ساؤتھ کی نمائندگی میں کمی، یکطرفہ اقدامات سے بین الاقوامی قانون کے کمزور ہونے، اور موسمیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل تقسیم، اور مصنوعی ذہانت و بیرونی خلا جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں مسائل کے حل میں ناکافی گورننس واضح ہے۔
امن، ترقی، سلامتی اور اعتماد سے جڑے مسائل گہرے ہو رہے ہیں، جبکہ موجودہ میکانزم ردعمل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ایسے میں عالمی حکمرانی میں اصلاحات کو آگے بڑھانا ہی ان خالی جگہوں کو پاٹنے کا واحد طریقہ ہے۔
چین کی جانب سے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کے اعلان کے لیے ایس سی او سمٹ کو پلیٹ فارم کے طور پر منتخب کرنا دانش مندانہ اور بامقصد طرز عمل تھا۔ چین،پاکستان ، روس اور دیگر رکن ممالک پر مشتمل ایس سی او دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور عالمی جی ڈی پی کے ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔
ایس سی او کی رواں سال تیانجن میں ہونے والی سربراہی کانفرنس اب تک کا سب سے بڑا اجلاس تھا، جس میں 20 سے زائد ممالک کے رہنماوں اور 10 بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہوں نے شرکت کی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ترقی پذیر دنیا سے تھا۔
برکس میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس سے یہ دونوں ایک ایسے اقدام کو فروغ دینے کے لیے مثالی پلیٹ فارم بن جاتے ہیں جس کا مقصد زیادہ مساوی اور جامع عالمی حکمرانی ہے۔گلوبل گورننس انیشی ایٹو ترقی پذیر ممالک کے طویل عرصے سے موجود خدشات کا براہ راست جواب بھی دیتا ہے، جن کی آوازوں کو عالمی فیصلہ سازی میں اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔باوجود اس کے کہ ابھرتی ہوئی معیشتیں، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ، کی شراکت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسی تنظیموں میں ان کی نمائندگی کم ہے، جہاں برکس ممالک کے ووٹ کے حصے کو کم سمجھا جاتا ہے۔
جب 80 سال پہلے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی، تو اس کے صرف 51 رکن ممالک تھے، اور چند گلوبل ساؤتھ ممالک ہی نوآبادیاتی حکومت سے آزاد ہوئے تھے۔آج، ترقی پذیر ممالک دنیا کی زیادہ تر ترقی کی رہنمائی کر رہے ہیں اور اس کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔لہذا ، انصاف اور جامعیت کے لیے ان کی طلب کو اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جی جی آئی ترقی پذیر ممالک کی عالمی فیصلہ سازی میں شرکت کو وسعت دے کر بین الاقوامی نظام کو زیادہ جامع اور مؤثر بنانے کی کوشش کرتا ہے، اس طرح یہ یقینی بناتا ہے کہ کثیر الجہتی اور مساوات پر واقعی عمل کیا جائے۔
جی جی آئی گزشتہ کئی سالوں میں چین کی طرف سے پیش کردہ چوتھا تاریخی عالمی اقدام ہے، اس سے قبل چین گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پیش کر چکا ہے۔2021میں، عالمگیر وبائی صورتحال اور معاشی بحالی کی سست روی کے پیش نظر عالمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو شروع کیا گیا تھا۔2022میں، خطرات کو کم کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے جیت جیت کی حکمت عملی کی وکالت کرتے ہوئے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو پیش کیا گیا۔2023 میں، تہذیبوں کے تصادم کو روکنے اور وسیع ہوتی ہوئی ثقافتی تقسیم کے جواب میں گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پیش کیا گیا، جس میں تہذیبوں کے درمیان جامعیت، بقائے باہم اور باہمی سیکھنے پر زور دیا گیا۔
ترقی اور سلامتی سے لے کر تہذیب اور حکمرانی تک، چین مستقل طور پر مشرقی حکمت پر مبنی تجاویز اور عملی حل پر توجہ مرکوز کرتا آیا ہے۔یہ اقدامات ایک زیادہ منصفانہ، جامع اور مستقبل پر مبنی بین الاقوامی آرڈر کی تعمیر، اور انسانیت کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے چین کے وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ |
|