عالمی گورننس کا بنیادی راستہ ، کثیرالجہتی پر عمل درآمد
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
عالمی گورننس کا بنیادی راستہ ، کثیرالجہتی پر عمل درآمد تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ "شنگھائی تعاون تنظیم پلس" اجلاس میں، چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز جو عالمی رجحانات اور دور حاضر کی واضح خصوصیات کی گہری سمجھ پر مبنی ہے، اس بات پر زور دیتی ہے کہ کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا عالمی حکمرانی کا بنیادی راستہ ہے۔
ایک صدی میں رونما ہونے والے غیر معمولی عمیق تغیرات کے تناظر میں، ابھرتی ہوئی منڈیاں اور ترقی پذیر ممالک تیزی سے ابھر رہے ہیں، عالمی کثیر قطبیت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی منظر نامہ زیادہ متوازن ہو رہا ہے، اور وقت کا مجموعی رجحان ناقابل واپسی ہے۔
بین الاقوامی طاقت کی ساخت، جو کبھی چند ممالک کی اجارہ داری تھی، اور اس نے ناانصافی اور غیر معقول بالادستی کو جنم دیا، اب وقت کی ضروریات یا بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا نہیں اترتی۔ گلوبل ساؤتھ قوموں کے عروج نے قواعد سازی میں مساوی شرکت کے مطالبات کو آگے بڑھایا ہے، جس نے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بین الاقوامی مشاورت کے عمل میں طاقت کے عدم توازن کو بنیادی طور پر چیلنج کیا ہے۔
کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا، درحقیقت، تمام ممالک کے مساوی حقوق کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا اور عالمی حکمرانی میں وسیع تر شرکت کے لیے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے، ایک ادارہ جاتی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ یہ عالمی حکمرانی کے نظام میں انصاف اور مساوات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔
کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا نئے دور میں چین کی خارجہ پالیسی کا رہنما اصول ہے۔ چین نے ہمیشہ مانا ہے کہ کثیرالجہتی موجودہ بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی گورننس کا مرکزی تصور ہے۔ مشترکہ مفاد کے لیے وسیع مشاورت اور مشترکہ تعاون کے اصول کو برقرار رکھنا چاہیے۔ عالمی معاملات کا فیصلہ سب کو کرنا چاہیے، گورننس کا نظام سب کو مل کر بنانا چاہیے، اور گورننس کے پھل کو مشترکہ طور بانٹنا چاہیے ۔چین کا ہمیشہ یہ بھی مستقل موقف رہا ہے کہ یک طرفہ پسندی کے عمل کو مسترد کرنا چاہیے۔
دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین فعال طور پر بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دے رہا ہے، اقوام متحدہ کو اس کی مرکزی حیثیت دیتے ہوئے بین الاقوامی نظام کو مضبوطی سے برقرار رکھ رہا ہے، اور شنگھائی تعاون تنظیم، برکس میکانزم، اور بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون سمیت دیگر کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے میں حمایت کر رہا ہے۔
چین نے ہمیشہ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اقوام متحدہ کثیرالجہتی کو عملی جامہ پہنانے اور عالمی حکمرانی کو آگے بڑھانے کا مرکزی پلیٹ فارم ہے، جس کے کردار کو بہتر بنانا چاہیے،ایسے کسی بھی فعل سے گریز کرنا چاہیے جو اسے کمزور کرے یا اس کے دائرہ کار اور انتظامی امور کےلیے خطرات کا سبب ہو۔
موسمیاتی تبدیلی، عوامی صحت کے بحرانوں، سائبر سیکیورٹی اور دہشت گردی سمیت عالمی چیلنجز کے بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے، کوئی بھی ملک تنہا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کے بانی رکن اور سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے، چین اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے تعاون کو گہرا کرنے، بین الاقوامی امور میں اس کے مرکزی کردار کی حمایت کرنے، اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر دنیا میں امن کو برقرار رکھنے اور ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔
حقائق ثابت کرتے ہیں کہ انسانی تقدیر کبھی بھی اس قدر باہم مربوط یا آپس میں جڑی ہوئی نہیں رہی ، جیسی اب ہے۔لہذا ، حقیقی کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا اور ایک کثیر القطبی دنیا کو فروغ دینا لازم ہے، ایک مساوی اور منظم دنیا کی تعمیر دنیا بھر کے عوام کا تقاضہ ہے،اور یہ وقت کی طرف سے سونپی گئی ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔ |
|