جشن آزادی یکم نومبر آپ سب کو
مبارک ہو۔سالہا سال کی طرح ایک اور یکم نومبر گزر رہا ہے۔یکم نومبر کی
آزادای دنیا کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔شجاعت و بہادری، جذبہ اسلام، جذبہ حب
الوطنی سے سر شار ہمارے آباﺅ اجداد نے ان سنگلاخ پہاڑوں پر، ان بلند و بالا
چٹانوں پر اور ان پر خطر راستوں سے بھوکے پیاسے بے سروسامانی کی حالت میں
گزر کر اُس دور کی سامراجی طاقت کو شکست دے کر دنیا کی تاریخ میں ایک نیا
باب رقم کیا ہے۔وہ کتنے عظیم لوگ تھے جو اُس وقت یک جان اور یک زبان ہوکر
اپنی آزادی کے لیے بے جگری سے لڑے اور کامیاب ہوئے۔ان میں شامل ہر ایک کا
کردار اپنی مثال آپ تھا۔کرنل حسن خان اور بابر خان کی قیادت میں ہمارے
جانبازوں نے ہمیں آزادی سے ہمکنار کر دیا۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مقام
فکر ہے نہ اُس دور میں آج کی طرح تعلیم اور میڈیا کا کوئی بندوبست تھا نہ
کوئی تربیت نہ جدید قسم کے ہتھیار تھے۔مگر اس کے باوجود ان کی فتح ایک
انہونی بات ضرور لگتی ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ آزادی حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں
جتنا اُس حاصل شدہ آزادی کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔عام سی مثال ہے اگر
کوئی شخص ایک عالیشان مکان تعمیر کرنے کے بعد اس کی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دے
تو وہ بھوت بنگلہ کی شکل اختیار تو کرسکتا ہے مگر مکینوں کا مکان نہیں کہا
جاسکتا ہے۔اور اس کی ایک زندہ مثال ملک عزیز پاکستان کی بھی ہے۔اکثر و
بیشتر دانشوروں نے بھی یہ کہا ہے کہ ہم اپنی آزادی کو صحیح ڈگر پر نہیں چلا
سکے ہیں۔ دراصل آزادی کے بعد وہاں کے ارباب اختیار کی گرفت مظبوط ہونی
چاہئے بصورت دیگر یہی صورت حال ہوتی ہے جو اب پورے ملک میں نظر آرہی ہے۔ملک
عزیز کا آج جو حشر نظر آرہا ہے اُس کی وجہ بھی یہی ہے۔ کہ اپنی آزادی کو
درست سمت پر برقرار نہ رکھ سکے۔جبکہ اُس دور کا شمالی علاقہ آج کے گلگت
بلتستان میں بھی تا حال جغرافیائی اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آتا
ہے۔البتہ پڑوس ملک چین نے ترقیاتی معاملات میں بڑا حصہ لئے رہی ہے اور ایک
امید بھی چین سے وابسطہ رہتی ہے۔اُس دور میں جب آزادی حاصل کی تھی اُسکے
باوجود ہمارے سرحدات غیر محفوظ تھیں وہ اس طرح کی مہتر چترال اپنی فوج لے
کر تیار تھا اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے اور اُس کا کہنا تھا کہ میں اُس
وقت چھوڑ دوں گا جب یہ علاقہ پاکستان سے شامل ہوگا۔دوسری جانب والی سوات نے
اپنی فوجیں تانگیر میں بھٹائی تھی اُس کا بھی یہ کہنا تھا کہ ہم اس مسلم
خطے کو واپس ہندوستان میں جانے نہیں دیں گے۔جبکہ تیسری طرف ہندوستان اپنا
بدلہ لینے کے لیے سر اُٹھا رہا تھا ۔تو اس کشمکش میں پاکستان کی طرف رجوع
کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ میجر براﺅن
نے جنرل گیرسی اور خان عبدالقیوم خان جواُس دور کا وزیر اعلیٰ سرحد تھا اس
کے علاوہ کرنل بیکن کو خط لکھا تھا۔اُس کی وجہ سے ہی سردار عالم یہاں وارد
ہوا تھا۔پھر یہ کیچڑی ایسی پکی جو اب تک پک رہی ہے۔مگر آفسوس اس بات کا ہے
کہ ہم اب تک آئینی طور پر پاکستانی نہیں کہلاتے ہیں۔اس کی مثال یوں ہے کہ
گلگت بلتستان کے25لاکھ ووٹ کو ایک ترازو میں رکھا جائے اور اسلام آباد کے
ایک مزدور کا ایک عدد ووٹ کا وزن کیا جائے تو وفاق کے لیے اُس مزدور کے ووٹ
کی اہمیت زیادہ ہوگی۔چونکہ اُس ووٹ سے سیاست دان ایون تک پہنچ جایا کرتے
ہیں جبکہ اس طرف گلگت بلتستان کے تمام باسیوں کے ووٹ سے وفاقی سیاستدان
اسمبلی تک نہیں پہنچ سکتے ہیں یعنی ہمارا ووٹ کارآمد نہیں ہے۔دوسرے
جانب13اگست1948ءمیں یو این سی آئی پی کی قرادادوں میں اس خطے کو متنازعہ
بنا رکھا ہے۔پاکستان کی مجبوری کی وجہ سے ہمیں اپنے آئین میں شامل نہیں
کرسکتا ہے اگر مجبری نہیں ہوتی تو دن درکنار آدھی رات کو ہی اپناآئین کا
حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر ہم یکم نومبر1947ءسے تا ایندم
وفاق کے زیر نگران چلے آرہے ہیں۔البتہ آہستہ آہستہ سیٹ اپ میں اضافہ ہوتا
جارہا ہے۔مگر ہمارے جغرافیائی معاملات اب بھی اُسی طرح حساس اور پر خطر ہیں
جو1947ءمیں تھے۔اگر افواج پاکستان ہمارے سرحدات کی حفاظت نہیں کریں گے تو
ہمارا ازلی دشمن انڈیا کبھی خاموش نہیں رہ سکتا ہے۔افغان سائٹ سے دہشت گردی
کا خطرہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔سوال یہ ہے کہ نہ ایک ارب میں ہماری گنجائش
ہے اور نہ ڈیڑھ ارب میں ہماری گنجائش ہے۔ نہ ان خطرات کے پیش نظر ہم کسی کا
تنہا مقابلہ کرسکتے ہیں۔جو قوم اپنا خوراک خود پیدا نہیں کرسکتی ہے وہ کس
طرح کئی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ہم آج بھی اُس چوراہے پر کھڑے ہیں جہاں
آزادی کے وقت کھڑے تھے۔اہم بات تو یہ ہے کہ نہ پاکستان کا ہمارے بغیر گزارہ
چل سکتا ہے اور نہ ہمارا پاکستان کے بغیر گزار ہوسکتا ہے اس کا واضع ثبوت
حالیہ سیلاب میں نظر آچکا ہے۔ ہمارے پاس ایک بلدیہ کا ادارہ ہے جس میںسب
مقامی لوگ شامل ہے ذرا حالت تو دیکھیں اپنے شہر کا؟1947ءسے اب تک ہم نے
کونسا کمال کر دکھایا ہے۔ہاں قوم کو ملنا ہے، ایک ہونا ہے تو دہشت گردی کے
خلاف ہم اکھٹے ہوجائیں۔یہاں کے حالات خراب کرنے میں روائیتی دہشت گردوں کے
علاوہ انٹرنیشنل گیمز بھی مصروف عمل ہیں۔ہم سب نے مل کر علاقے میں امن کا
ماحول پیدا کرنا ہے،امن ہم سب کی ضرورت ہے۔ چونکہ ترقی کا دارومدار امن پر
منحصر ہے عوام اور حکومت کے درمیان شبہات کو ختم ہونا چاہئے اور ریاست کے
ساتھ مل کر اس خطے کو امن کا گہوارہ بنانا ہوگا۔پھر یقین سے کہا جاسکتا ہے
کہ تعمیر و ترقی کے دروازے ہر ایک کے لیے کھل جائیں گے۔آج کا دور جدید
تعلیم حاصل کرنے کا ہے اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کو ایک اچھا ماحوال
چھوڑنا ہے تاکہ ان کا مستقبل ہماری طرح کا نہ ہو ہمیں اپنی نسلوں کے بارے
میں بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔آج یہاں پر فرقہ واریت کا رنگ دیا جا رہا ہے
کہ سنی شیعہ کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ حالانکہ ہم صدیوں سے یہاں رہ رہے
ہیں خون کے رشتے ہیں ۔نفع نقصان ہم سب کا مشترک ہے چاہے قدرتی آفات ہوں یا
انسانی کے دیئے ہوئے آفات ہوں، اسی طرح قدرتی نعمات ہوں یا حکومتی نعمات
ہوں ہر ایک چیز ہماری مشترک ہے۔یہاں ایک خاص سازش کے تحت ہمیں آپس میں
لڑوایا جارہا ہے۔ ہماری ثقافت کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ کہیں ہمارا ریکارڈ
جلایا جارہا ہے تو کہیں ہمیں آپس میں شین یشکن کے حوالے سے تقسیم کیا جارہا
ہے ہماری زبان بھی بتدریج دم توڑتی جارہی ہے۔ ہمیں اس جانب سنجیدگی سے توجہ
دینے کی ضرورت ہے یہ آپس کی دوریاں ہمارے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ ہمیں کھلے
ذہن سے اس پیچیدہ مسئلے پر غور کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول پر
نظر رکھنا ہے دہشت گر د،شرپسند جو کوئی بھی ہو بغیر روابط کے ہم نے اچھے کو
اچھا اور برے کو برا کہنے کی ہمت پیدا کرنی چاہئے۔اگر ہم ایک لڑی میں
پروجائیں گے تو کوئی بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔ہمیں ادھر اُدھر
امیدیں رکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں بیرونی و اندرونی خطرات کے پیش نظر آج کا
گلگت بلتستان اور1947کے گلگت بلتستان میں کوئی واضع فرق نظر نہیں آتا
ہے۔دعا کریں کہ پروردگار عالم ہمیں اپنے دوست و دشمن کو پہچاننے کی توفیق
عطا فرمائے اور آپس میں شیرو شکر رہنے کی بھی توفیق عنایت فرمائے (آمین) |