میرے میاں بھی عجیب ہیں ۔پل میں
تولہ ، پل میں ماشہ۔کبھی سیلِ تُند خُو تو کبھی جوئے نغمہ خواں۔ہر سیاسی
پارٹی کے کڑے نقادمگر بہی خواہ بھی۔کم از کم مجھے تو آج تک پتہ نہیں چل
سکاکہ ان کا کس سیاسی پارٹی سے تعلق ہے۔بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ سیّد
مودودی ؒ کو اپنا مرشدِ معنوی کہتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے
خلاف شدید احتجاج کی پاداش میں جیل یاترا بھی کر چکے ہیں۔شریف برادران کے
کپڑوں سے انہیں وطن کی مٹی کی سوندھی خُوشبو آتی ہے اور بی بی بینظیر کی
شہادت کا کئی دنوں تک سوگ مناتے ہیں۔انہیں عمران خاں کی دیانت پر کوئی شک
نہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ سیاسی نا پختگی کی بنا پر وہ دوسروں کے ہاتھوں میں
کھیل رہے ہیں۔ایم۔کیو۔ایم کا نام سنتے ہی ان کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔قلم
اتنا بد لحاظ کہ کسی کو بخشتا ہی نہیں ، نہ جھجک ، نہ شرم ، نہ مروت ، نہ
لحاظ ۔میں ایک دفعہ پوچھ بیٹھی کہ آخر کو میں آپ کی ” نصف بہتر “ ہوں آج یہ
راز کھول ہی دیں کہ آپ کا کس سیاسی پارٹی سے تعلق ہے؟ ۔مختصر جواب کہ ”نصف
بد تر “ ! لکھاری صرف اپنے قلم کا سگا ہوتا ہے ، کسی سیاسی پارٹی کا نہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ فروری 1981 ء میں جب پی۔پی۔پی کے جیالوں کی پکڑ دھکڑ
شروع ہوئی تو میرے میاں جو اس وقت گورنمنٹ لیکچرر تھے ، کو پکڑ کر سنٹرل
جیل ساہیوال بھیج دیا گیا ۔ الزام کیا ؟ ”Pro Bhutto Communist اور Active
member of Al-Zulfiqar“ ۔ سنٹرل جیل ساہیوال میں فاروق لغاری مرحوم سمیت
پی۔پی۔پی کے چوٹی کے لیڈر نظر بند تھے ۔اب بھی جب وہ کبھی موڈ میں ہوتے ہیں
تو جیل کی باتیں بڑے چسکے لے لے کر بیان کرتے ہیں ۔فاروق لغاری جب صدر بنے
تو میں نے ازراہِ تفنن کہہ دیا کہ آپ بھی اپنے جیل کے ساتھی سے مِل آئیں
۔انہوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور خاموش رہے ۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اتنا
عرصہ گزرنے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی جیل کے ساتھی سے دوبارہ ملاقات کی
ہو ۔جیل میں گئے تو وزن 110 پونڈ تھا پلٹے تو 130پونڈ۔میں نے حیرت سے صحت
کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ جیل بڑی زبر دست جگہ ہے ۔ نہ فکرِ فردا نہ غمِ
دوش ، کوئی ڈسٹرب کرنے والا نہیں۔ہر کوئی اپنی سوچوں میں گُم ، اپنے آپ میں
مگن ۔سارا دن اور ساری رات لکھتے رہو ، پڑھتے رہو۔پھر کہنے لگے کہ جیل میں
بڑا نظم و ضبط ہوتا ہے ۔ اس بد نظم اور بے ترتیب قوم کے ہر فرد کو یکے بعد
دیگرے کچھ عرصے کے لئے جیل بھیجنا چاہیے تاکہ ان میں کچھ تو نظم و ضبط کا
مادہ پیدا ہو جائے۔میں نے چڑ کر کہاجی ہاں ! شائد اسی جیل یاترا کی بدولت
ہمارے حکمران اور سیاست دان انتہائی منظّم ہو کر قوم کو لوٹ رہے ہیں اور
لاکھ سیاسی اختلافات ہوں لیکن اس معاملے میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ
دیتے ہیں ۔جب کہ دوسری طرف بد نظم عوام اگر کسی بنک سے چند ٹکے قرض لے
لیںتو انہیں قرض کی واپسی کے لئے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ خود کشیاں
کرنے لگتے ہیں ۔وہ خاموش رہے۔
بی بی جب پہلی بار وزیرِ اعظم بنی تو انہوں نے جیالوں کے ساتھ عمرہ ادا
کرنے کا اعلان کیااور کہا کہ ضیاءدور میں قربانیاں دینے والے جیالے رابطہ
کریں۔میں نے کہا ” مفت میں عمرہ ہو رہا ہے آپ بھی ہو آئیں“ ، تو کہنے لگے
”جب میں جیالا ہوں ہی نہیں تو جاؤں کیوں؟ ۔ پوچھا کہ پھر جیل کیوں کاٹی ؟
۔تو کہا ”قائدِ اعظم کو خراب ایمبولینس کے ذریعے قتل کیا گیا اور ”قائدِ
عوام“ کو عدالت کے ذریعے۔احتجاج میرا فرض تھا ، کسی پر احسان نہیں۔۔۔۔۔ جیل
سے چھوٹے تو ایجنسیاں پیچھے لگ گئیں۔تنگ آ کر ”قطر“ کھسک لئے۔وہاں دوہا میں
ہم دونوں نے ”پاکستان ایجوکیشن سنٹر “ میں ملازمت اختیارکر لی۔لیکن ”سکوں
محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ اور جہاں میرے میاں ہوں وہاں بھلا سکون کا
کیا کام؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے پھر کبھی سہی۔بہرحال ہم کچھ عرصہ بعد ہی
واپس آ گئے اور اپنا اپنا کالج پھر سے جوائن کر لیا۔تب سے اب تک ”وہی ہے
چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔“پرسوں نواز لیگ کی ریلی کے بعد
کہنے لگے کہ انقلابِ فرانس سے پہلے وہاں کے خائن اور بد دیانت بڑے بڑے
جاگیر دار وڈیرے اور نواب ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر ہر روز غریب کسانوں کی
ہمدردی میں تقریریں کرتے اور ٹسوے بہاتے تھے ۔آج ہزاروں ایکڑ پر محیط محلوں
میں رہنے والے بڑی لے کے ساتھ جب حبیب جالب مرحوم کی نظم ”میں نہیں مانتا“
گا رہے تھے تو مجھے یقین ہو چلا کہ اب انقلاب قریب آ لگا ہے ۔مجھے تو جوئے
خوں صاف نظر آنے لگی ہے۔پتہ نہیں حکمرانوں کو کیوں نظر نہیں آتی؟۔میں نے از
راہِ مذاق یہ کہا کہ کیا معاملہ ختم یا بچنے کی کوئی راہ بھی ہے ؟ ۔کہنے
لگے کہ ایک راہ ہے کہ اگر 3-D's سے بچنے کی کوئی راہ نکل سکے ۔میں نے حیرت
سے پوچھا ”یہ تھری ڈیز “ کیا بلاہے ؟۔ تو مسکرا کر کہنے لگے کہ ”ڈرون،
ڈینگی ، اور پی۔پی۔پی کے تین سیاسی ڈاکٹر“ جو جلتی پر تیل نہیں بلکہ پٹرول
چھڑکتے ہیںاور جن کا ماضی میں پی۔پی۔پی کے ساتھ نہ کبھی نظریاتی تعلق رہا
ہے نہ سیاسی۔ |