عملی اقدامات پر مبنی مؤثر گورننس
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
عملی اقدامات پر مبنی مؤثر گورننس تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ برسوں میں یہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ عالمی گورننس سے جڑے مسائل میں اضافہ مؤثر اور عمل پر مبنی اقدامات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم پلس کے حالیہ اجلاس میں،چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل گورننس انیشی ایٹو پیش کرتے ہوئے زور دیا کہ حقیقی نتائج پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
گلوبل گورننس انیشی ایٹو کے پانچ اہم اصولوں کا اگر مختصراً احاطہ کیا جائے تو یہ خودمختاری کی مساوات پر عمل کرنے، بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے، کثیرالجہتی پر عمل کرنے، عوام کی مرکزیت کے نقطہ نظر کی وکالت کرنے، اور حقیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے ، پر زور دیتے ہیں۔ اس انیشی ایٹو نے عالمی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ایک عملی راستہ متعین کیا ہے اور یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ یہ عالمی گورننس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ممالک کے اجتماعی اقدامات کو تقویت دے گا۔
حقیقی نتائج کے حصول پر عمل درآمد عالمی گورننس کا ایک اہم اصول ہے۔ مؤثر عالمی گورننس بنیادی طور پر وہ ہے جو حقیقی مسائل کو حل کرتی ہے۔ مختلف مسائل کے درمیان قریبی روابط کو دیکھتے ہوئے، عالمی گورننس کو زیادہ مربوط، منظم اور جامع انداز میں انجام دیا جانا چاہیے۔ اسے پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے بنیادی وجوہات اور علامات دونوں کو حل کرنا چاہیے۔ اسی طرح عالمی گورننس میں بہتری کی کوششوں کو فوری مسائل کے ساتھ ساتھ طویل مدتی چیلنجز پر بھی غور کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں یہ لازم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نبھانی چاہئیں اور زیادہ وسائل اور پبلک پراڈکٹس مہیا کرنا چاہئیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے اور دنیا کے مفاد کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
چین کے حوالے سے یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ وہ حقیقی اقدامات کے ذریعے عالمی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور نیو ڈویلپمنٹ بینک کو آگے بڑھانے سے لے کر گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو ، گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو ، اور گلوبل گورننس انیشی ایٹو جیسی پبلک پراڈکٹس تک، چین نے عالمی تعاون کے لیے متعدد پلیٹ فارمز قائم کیے ہیں جنہیں وسیع پیمانے پر خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔
اسی دوران، چین نے عالمی بحرانوں کے سیاسی حل کو بھی فروغ دیا ہے اور ایشیا کے لیے ایک سیکیورٹی ماڈل تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے جو کہ باہمی مفاد، مشترکہ نکات تلاش کرنا جبکہ اختلافات کو ختم کرنا، اور بات چیت اور مشاورت کو ترجیح دینے کی اہمیت واضح کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین نے مسلسل ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی عالمی گورننس نظام کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
چین نے اس سے قبل بھی عالمی گورننس کی اصلاحات اور ترقی کے بارے میں ہمیشہ کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے جسے دنیا نے وسیع پیمانے پر سراہا بھی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین کا پیش کردہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کا تصور ایک خیال سے عمل اور ایک وژن سے حقیقت کی جانب بڑھا ہے، چین نے بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کرے، بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھے جس میں اقوام متحدہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو، بین الاقوامی امور میں مرکزی کردار ادا کرنے میں اقوام متحدہ کی حمایت کرے اور عالمی گورننس کے نظام کو مزید ترقی یافتہ اور بہتر بنایا جائے۔
گلوبل گورننس انیشی ایٹو بھی بین الاقوامی برادری سے توقع کرتا عملی اقدامات کی روشنی میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی معاملات میں فعال کردار کو مضبوط کیا جائے اور عالمی گورننس کے نظام میں مسلسل اصلاحات اور بہتری لائی جائے۔یہ انیشی ایٹو امن، سلامتی، ترقی، انسانی حقوق اور دنیا کے تمام معاشروں کی خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے ۔
آگے دیکھتے ہوئے، دنیا بھر کے ممالک کو ٹھوس اقدامات کے ذریعے باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ صرف اس طرح ہی عالمی گورننس کے خسارے کو حل کیا جا سکتا ہے اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے وژن کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
|
|