کبھی کبھی میرے دل میں خیال
آتاہے، کاش پاکستان میں بھی کوئی اَنا ہزارے ہوتا ،جو پاکستان میں ہونے
والی ،کرپشن ،بدامنی ، دہشتگردی ،ٹار گٹ کِلنگ،سیاسی اجارہ داری،مہنگائی ،
بے روزگاری، لوڈشیڈنگ ، جو ایک عام آدمی کے مسائل ہیں انکے حل کے لئیے
حکومت سے مطالبہ کرتااور بھوکا ر ہ کر احتجاج کرتا،مگریہ ہو نہ سکا۔۔اور اب
پاکستان میں نوازشریف اور عمرآن خان ہیں ،جو پاکستان میں سب سے زیادہ
انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں۔نواز شریف صاحب کا تو تکیہ کلام ہی انقلاب
بن چُکا ہے جبکہ عمرآن خان صاحب جتنے انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں تو شاید چند
د نوں بعدا نقلاب خان کے نام سے ہی پکارے جانیں لگیں ۔ ان لوگوں نے انقلاب
لانا اتنا آسان سمجھ لیا ہے جیسے کوئی انقلاب تونہ ہوابلکہ ڈینگی وائرس یا
سیلاب ہوا جو ہر سال پاکستان میں آجاتا ہے ۔ نوازشریف صاحب آج بھی
جلسے،جلوسوں اور انٹرویوز میں اکثر لانگ مارچ کی ہی باتیں کرتے دیکھائی
دیتے ہیں شاید جناب عوام کو بتانا یہ چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ کو کامیاب
بنانا اور عدلیہ کو آزاد کروانے کا سہرہ صرف اور صرف اُنکے سرجاتا ہے۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ جناب کی کوششیںبھی قابلِ تعریف تھیں ،لیکن ہم
وُکلابرادری ،سِول سوسائیٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں،تحریک انصاف ،جماعتِ
اسلامی، مسلم لیگ(ق) ایم ۔کیو ۔ایم اور خاص طور پر میڈیا کی قربانیوں کو
بھی نظرانداز نہیں کرسکتے جنہوں نے عدلیہ کو آزاد کروانے میں اہم کردار ادا
کیا، خیر اب گزری باتیں دُہرانے کوئی فائدہ نہیں ، وہ کل کی بات تھی جو گزر
گئی اب ہمیں آج اور آنے والے کل کے بارے میں سوچنا ہے۔ اگر ہم پڑوسی ملک
انڈیا اور پاکستان کا موزانہ کریں تو اس وقت انڈیا ،پاکستان سے بہت آگے نکل
گیا ہے اور جس تیزی سے ترقی کررہا ہے لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا کا
ایک مظبوط ترین ملک ہوگا۔انڈیا کی ترقی اور پاکستان کی پَستی کی ایک اہم
وجہ ہمارے ملک کی لیڈرشپ کا پاکستان اور اپنی عوام کے ساتھ غیر سنجیدہ
راوئیہ بھی ہے ۔انڈیا کے بڑے بڑے منتری بلکہ وزیراعظم تک کا رہن سہن نہائیت
ہی سادہ اور نارمل ہے ۔ جبکہ ہمارے ملک کے وزیراعظم صاحب پوری دنیا
میںمہنگے ترین تھری پیس سوٹ پہننے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیںتو وہیں ہماری
وزیرخارجہ صاحبہ نے دورہ بھارت کے دوران ہزاروں ڈالرز سے خریدی ہوئی اپنی
گھڑی پرَس اور جیولیری کی نمائش کرکے سب کو حیران کیا ، ہمارے وزیرداخلہ
جناب رحمان ملک صاحب مہنگی ترین رنگ برنگی ٹائیزکے شیدائی ہیں یہ الگ بات
ہے کہ کوئی ٹائی اُنکی پرسنیلٹی کے ساتھ میچ نہیں ہوتی۔ پھر بات جب گاڑیوں
کی ہو تو ہم کیسے پیچھے راہ سکتے ہیں ہمارے منسٹرز کے پی۔اے بھی ایسی
گاڑیوں میں بیٹھنا گوارہ نہیں کریں گے جو گاڑی انڈیا کے وزیراعظم نے اپنے
استعمال میں رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان ذہانت ،طاقت، کھیل اور فن میں انڈیا سے
لاکھ درجے بہتر ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی ذہانت اور طاقت کا
استعمال وقت کی مناسبت سے نہیں کرتے کیونکہ ہم بہت جلد اِموشنل ہو جاتے ہیں
اور جذبات میں آکر کئیے ہو ئے فیصلے درست ثابت نہیں ہوتے۔ایک وقت تھا جب
انڈیا ریلوے تباہی کے دہانے پر تھی اُس وقت لالو پرساد یادئیو انڈیا ریلوے
کا منسٹر بنا،لالو پرسادیادئیو جو دیکھنے میں ایک گنوار اور جب وہ بولتے
ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید دنیا میں اس سے بڑا کوئی جاہل پیدا ہی نہیں
ہوا لیکن اُس آدمی نے صحیح وقت پر دماغ کا استعمال کیااور انڈیا ریلوے کو
اتنی ترقی پر لے گیا کہ آج انڈیا ریلوے بھارت میں سب سے زیادہ نفع دینی
والی صنعتوں میں سے ایک ہے۔اب کچھ بات کرتے ہیں پاکستان ریلوے وزیر غلام
بلور صاحب کی جنہوں نے اپنے گلے کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے کا بھی بھٹا
بٹھا دیا ہے۔ اب سننے میں یہ آیا ہے کہ پاکستان ، انڈیا سے 500ریلوے انجن
رینٹ پر لے گا پاکستان ریلوے میں بہتری لانے کے لیئے دیکھتے ہیں اس ڈرامے
کا کلائیمکس کیا ہوتا ہے ،خدا خیرہی کرے ۔۔۔کوئی بھی بڑا لیڈر مہنگے کپڑے
پہننے یا بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے سے نہیں بلکہ عوام کی فلاح وبہبود کے
لیئے بڑے ہی اچھے اچھے کام کرنے سے بنتا ہے ۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں
کے پاس بڑے لیڈرز تو موجود ہیںلیکن ان تمام بڑے لیڈرز میں قیادت کی بڑی کمی
ہے۔ لیڈر کیا ہوتا ہے اور قیادت کیسے کی جاتی ہے اس کی ایک مثال چند روز
قبل انڈیا میں دیکھنے کو ملی اَنا ہزارے کی شکل میں جس نے پورے بھارت میں
تہلکہ مچا دیا اور انڈیا اسمبلی کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا، اَنا ہزارے
کا موقف تھا کرپشن کا خاتمہ اور اداروں تک عام آدمی کی رسائی ، انڈیا حکومت
سے عوام کے مطالبات منوانے کے لیئے چوہتر سال کی عمر میں اپنے آپ کو تیرہ
دن تک بھوکا رکھا اورآخر کار حکومت کو اَنا ہزارے کے آ گے جھکنا ہی پڑا اور
مطالبات کو ماننا ہی پڑا کیونکہ اَنا ہزارے نے تب تک بھوکا رہنے کا اعلان
کیا تھا جب تک مطالبات مانے نہیںجانے تھے اُس نے اپنے آپ کو عوام کے لیئے
وَقف کردیا چاہے اُس کی جان ہی چلی جاتی ، اسے کہتے ہیں لیڈر شپ او ر اچھی
قیادت یہی وجہ ہے کہ آج اَنا ہزارے صرف انڈیا میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں
کے بھی پسندیدہ شخصیت ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آج پاکستان کی سینکڑوںسیاسی
جماعتوں میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیںجو اَنا ہزارے کی طرح عام عوام کے مسائل
کو لیکر میدان میں آئے۔شاید ایسا سوچنا بھی غلط ہوگا۔ کیونکہ ہمارے زیادہ
تر سیاستدان، ماشااﷲکھاتے پیتے گھرانوںسے ہیں جو اپنے ناشتے مھکن کے
پُراٹھے ،بٹیر،چکن اور مٹن سے کرتے ہوں وہ غریب عوام کے لیئے چند روز تو
کیا شاید چند گھنٹے بھو کا نہ رہ سکیں۔موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لی جیئے ،سیلاب
اور ڈینگی وائرس جیسی قدرتی آفات سے غریب عوام کس طرح لڑرہی ہے لوگ کئی کئی
دنوں سے فاقے کا ٹنے پر مجبور ہیں،معصوم بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کے ساتھ
کھلے آسمان تلے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ہمارے حکمرانوں اور تمام سیاسی
جماعتوں کی ہمدردی کی بھی کیا بات ہے، ہیلی کاپیٹرز اور اے۔سی والی گاڑیوں
میں بیٹھ کر متاثرہ لوگوں کے ساتھ اِظہارے ہمدردی جتانے آتے ہیںجو اصل میں
اُن لوگوں کی دل ازاری کرتے ہیں۔جتنے اخراجات اِن سب لوگوں کے متاثرہ
علاقوں کے دورے کرنے پرآتے ہیںاُس کثیررقم سے چند مُتاثرہ خاندان پھر سے
آباد ہوسکتے ہیں ،لیکن پھر ایسا ہونے سے ہمارے لیڈرز کا فوٹو سیشن کروانے
کا موقع بھی تو ضائع ہوتا ہے ۔بات پھر وہی ا ٓجاتی ہے ،
دیانتدار،ایماندار،با صلاحیت قیادت کی۔اَنا ہزارے کی مثال دے کر پاکستان کی
سیاسی قیادت کو آئینہ دیکھانا کچھ اچھا نہیںلگالیکن حقیقت پھر حقیقت ہے،ےہ
دعا ہے کہ خدا کوئی ایسا معجزہ دیکھادے کہ ہمارے حکمران او رسیاسی جماعتوں
کے لیڈرز بھی اتنے اچھے ہو جائیں کہ دوسرے ملکوں کے لوگ ان کی مثالیں دیں،
اچھا لیڈر وہی ہوتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں رہتا ہو۔جب انا ہزارے کی بھوک
ہڑتال جاری تھی تو اُس دوران انڈیا کے ہر ایک ٹی وی چینل نے صرف اُسی کو
فوکس کیا ہوا تھااُنھیں دنوں میں اپنے کزن کے گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا
کہ اچانک میرے کزن کے بیٹے نے جس کی عمر نو سال ہے مجھ سے ایک معصوم سا
سوال کیا ، انکل پاکستان کا انا ہزارے کون ہے ۔اُس کے معصومیت بھرے سوال نے
مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا واقع ہی آج پاکستان کو بھی ایک انا
ہزارے کی ضرورت ہے ،،،اگر ہے تو پھر سب ملکر سوچئیے کہ پاکستان کا انا
ہزارے کون؟؟؟ |