عالمی موسمیاتی گورننس کا چینی فارمولہ
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
عالمی موسمیاتی گورننس کا چینی فارمولہ تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر فوری ردعمل کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹا جائے اور عالمی معیشت کی بحالی کو کس طرح فروغ دیا جائے، یہ آج درپیش اہم ترین موضوع ہے۔
تاہم ، یہ امر قابل اطمینان ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے تواتر سے گرین ترقی کی حمایت میں اہم بیانات سامنے آئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ سائنسی اور تکنیکی اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے توانائی کے وسائل، صنعتی ڈھانچے اور کھپت کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ کو فروغ دینا چاہیے، گرین معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ مادی ترقی اور فطرت کے تحفظ میں ہم آہنگی کے لیے نئے طریقوں کی جستجو کرنی چاہیے۔
اس ضمن میں چین جیسے بڑے ملک اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم فریق کی جانب سے ہمیشہ یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ کہا گیا ہے کہ کثیر الجہتی اتفاق رائے کو برقرار رکھا جائے،تمام ممالک کی جانب سے عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے کیونکہ عمل کی بدولت ہی وژن حقیقت بن سکتا ہے، تمام فریقوں کو اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے، حقیقت پسندانہ اہداف اور وژن وضع کرنا چاہیے، اور قومی حالات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کے نفاذ کو فروغ دینے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
اپنی انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے ابھی حال ہی میں نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی سمٹ سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے عالمی موسمیاتی گورننس کے حوالے سے تین اہم تجاویز پیش کیں جن کا مختصراًاحاطہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے عالمی موسمیاتی گورننس کا چینی دانش پر مبنی ایک قابل عمل فارمولہ پیش کیا ہے۔
ان تجاویز کی روشنی میں اول، اعتماد کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ سبز اور کم کاربن والی تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔اگر کوئی ملک اس کے برعکس عمل کرتا ہےتو پھر بھی بین الاقوامی برادری کو صحیح سمت پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، اعتماد میں استحکام، اقدامات میں تسلسل اور شدت میں استقلال برتتے ہوئے قومی سطح پر متعین کردہ شراکتوں کی تشکیل اور ان کی تکمیل کے لیے کام کرنا چاہیے، تاکہ عالمی موسمیاتی گورننس کے تعاون کو مزید مثبت توانائی فراہم کی جا سکے۔
دوسرا، ذمہ داریوں کو پورا کرنا لازم ہے ۔اس ضمن میں انصاف اور مساوات کو برقرار رکھنا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کے ترقیاتی حق کو مکمل طور پر احترام کیا جانا چاہیے۔ عالمی سبز منتقلی سے شمال۔جنوب کے فرق کو کم کرنا چاہیے نہ کہ بڑھانا چاہیے۔ ممالک کو مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں کے اصول کا احترام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کو مزید مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنی چاہیے۔
تیسرا، تعاون کو گہرا کرنا نہایت اہم ہے۔اس ضمن میں سبز ٹیکنالوجیز اور صنعتوں میں بین الاقوامی ہم آہنگی کو مضبوط بنایا جانا چاہیے، سبز پیداواری صلاحیت کی کمی کو پورا کیا جانا چاہیے اور معیاری سبز مصنوعات کی عالمی سطح پر آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تاکہ سبز ترقی کے فوائد دنیا کے ہر کونے تک پہنچ سکیں۔
شی جن پھنگ نے اس موقع پر چین کی نئی قومی سطح پر متعین کردہ شراکتوں کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ چین کاربن پیک لیول کے تناظر میں 2035ء تک خالص گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 7 سے 10 فیصد کمی کرے گا،ہر ممکن بہتر کارکردگی کی کوشش کرے گا؛ مجموعی توانائی کی کھپت میں غیر فوسل ایندھن کے شیئر کو 30 فیصد سے زائد تک بڑھائے گا؛ ہوا اور شمسی توانائی کی تنصیب شدہ صلاحیت کو 2020 کے مقابلے میں چھ گنا سے زیادہ کرے گا، جسے 3600 گیگاواٹ تک لانے کی کوشش کرے گا؛ مجموعی جنگلاتی ذخیرے کی مقدار 24 ارب کیوبک میٹر سے زیادہ کرے گا؛ نیو انرجی گاڑیوں کی نئی فروخت کو مرکزی دھارے میں لائے گا؛ قومی کاربن اخراج ٹریڈنگ مارکیٹ کو بڑے اخراج والے شعبوں تک وسعت دے گا؛ اور بنیادی طور پر ایک موسمیاتی مطابقت پذیر معاشرہ قائم کرے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ اہداف پیرس معاہدے کی شرائط کے مطابق چین کی بھرپور کوششوں کے عکاس ہیں، ان اہداف کی تکمیل کے لیے چین کی جانب سے سخت محنت کے ساتھ ساتھ ایک معاون اور کھلے بین الاقوامی ماحول کی بھی ضرورت ہے، اور چین کے پاس اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا عزم اور اعتماد ہے۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ موسمیاتی ردعمل ایک فوری اور طویل مدتی کام ہے، انہوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے خوبصورت وژن کو حقیقت بنانے اور کرہ ارض کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کریں۔
وسیع تناظر میں چینی صدر کا خطاب اس توقع اور امید کا اظہار ہے کہ تمام فریق اپنے اقدامات میں تیزی لائیں گے ، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں گے اور بنی نوع انسان کی مشترکہ کرہ ارض کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گے۔ |
|