کشمیر کا ذکر آتے ہی خون کے دھبوں اور قربانیوں کی خوشبو ایک ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس کے نام پر لاکھوں ماں باپ نے اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھائے، ہزاروں بیٹیوں نے سہاگ اجاڑے اور پوری ایک قوم نے اپنے سینے چاک کیے۔ لیکن افسوس، آج اسی خطے کے کچھ لوگ چھوٹے چھوٹے معاملات پر سڑکوں پر نکل کر نعرے لگاتے ہیں، ریاست کو کوستے ہیں اور پاکستان سے آزادی مانگتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل سوال کرتا ہے: کیا یہ لوگ تاریخ بھول گئے ہیں؟ یا یہ صرف چند مخصوص آوازیں ہیں جو دوسروں کے اشارے پر شور مچا کر پوری قوم کا نام خراب کر رہی ہیں؟
1947 کی تقسیم کو یاد کیجیے۔ برصغیر کے بٹوارے کے وقت کشمیر کی اکثریت مسلمان تھی، مگر حکمران ایک ہندو مہاراجہ، ہری سنگھ تھا۔ جب اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو وادی کے مسلمان تڑپ اٹھے۔ پاکستان کے نوجوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس جنگ میں کود پڑے۔ لاشوں کے انبار لگ گئے، مگر یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان اور کشمیر کا رشتہ صرف زمینی نہیں، ایمانی بھی ہے۔ اُس وقت اگر پاکستان کے جوان نہ لڑتے تو شاید کشمیر کا نقشہ بھی آج جموں جیسا ہوتا، جہاں مسلمان اقلیت میں بدل دیے گئے۔
پھر 1965 آیا۔ پاکستان نے ایک بار پھر اپنی سرحدیں اور اپنی عزت بچانے کے لیے خون دیا۔ کارگل کی جنگ نے بھی یہی پیغام دیا کہ پاکستان کشمیر کے نام پر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ صرف کتابوں میں نہیں، شہیدوں کے خون میں لکھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے کچھ لوگ اگر پاکستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو کس کا دامن تھامیں گے؟ بھارت کا؟ وہاں تو حالات سب کے سامنے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی لاشوں کو کندھوں پر اٹھائے بیٹھی ہیں۔ گھروں کے دروازے توڑے جاتے ہیں، نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، اور پوری وادی کو ایک قیدخانہ بنا دیا گیا ہے۔ کیا یہ وہی "آزادی" ہے جس کی طرف کچھ کشمیری للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں؟
چلیں، بھارت نہیں تو چین؟ بظاہر چین ترقی دے سکتا ہے، بڑی بڑی سڑکیں بنا سکتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے، لیکن وہاں مذہبی آزادی کا حال کیا ہے؟ وہاں مساجد کے دروازے بند ہیں، اذان کی آواز دبائی گئی ہے، اور مسلمانوں کی زندگی پر ایسی پابندیاں ہیں کہ انسان کانپ جائے۔ تو کیا کشمیری اپنی روح اور مذہب بیچ کر ترقی خرید لیں گے؟ کیا وہ اپنی شناخت کو دفن کر کے چین کی خوشحالی کا جھوٹا سہارا لیں گے؟
اب رہ گیا پاکستان۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے کشمیریوں کو مذہبی، سماجی اور تجارتی آزادی دی۔ یہاں کشمیری بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں، جائیدادیں خریدتے ہیں، سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن کسی پاکستانی کو کشمیر میں زمین خریدنے کا حق نہیں۔ پاکستان نے کبھی اس پر زور نہیں دیا، حالانکہ بھارت نے جموں میں یہی حربہ آزمایا کہ باہر کے لوگ زمین خریدیں تاکہ مقامی مسلمان اقلیت میں بدل جائیں۔ پاکستان اگر چاہتا تو یہی راستہ اختیار کر سکتا تھا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ وہ کشمیریوں کو اپنے بھائی سمجھتا ہے، نہ کہ صرف زمین کے ٹکڑوں پر قابض ہونے کا ذریعہ۔
یہاں ایک سوال اور جنم لیتا ہے: آخر یہ نعرے کیوں لگتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ آوازیں پوری کشمیری عوام کی نہیں، بلکہ ایک مخصوص طبقے کی ہیں جو بیرونی ایجنسیوں کے اشاروں پر یہ کھیل کھیلتا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر میں وہی تماشا برپا کیا جائے جو جموں میں کیا گیا۔ لوگوں کو آپس میں لڑایا جائے، افرا تفری پیدا کی جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ "یہ تو پاکستان کے ساتھ بھی خوش نہیں ہیں۔" لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے ان چالوں سے بخوبی واقف ہیں اور کئی بار ان عناصر کو بے نقاب بھی کر چکے ہیں۔
اب اصل سوال: کیا کشمیری واقعی آزاد ہو سکتے ہیں؟ خواب دیکھنا آسان ہے، لیکن حقیقت تلخ ہے۔ کشمیر تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے: بھارت، پاکستان اور چین۔ کوئی بھی طاقت اپنی سرحدوں کے بیچ ایک نئی ریاست کو ابھرنے نہیں دے گی۔ یہ زمینی حقیقت ہے۔ ہاں، اگر کشمیری آزادی چاہتے ہیں تو انہیں وہ قربانیاں دینا ہوں گی جو پاکستان نے 1947 میں دیں، جو اس کے نوجوانوں نے 1965 میں دیں اور جو آج تک ہر محاذ پر دی جا رہی ہیں۔
پاکستان نے کشمیریوں کے لیے چار جنگیں لڑیں، ہزاروں شہیدوں کا خون دیا، ہر عالمی فورم پر ان کی آواز بلند کی۔ آج بھی پاکستان ہی ہے جو کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے۔ تو پھر کشمیری عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ، جو ان کے لیے اپنی جانیں قربان کرتا رہا، یا ان بیرونی ہاتھوں کے ساتھ، جو صرف ان کے جذبات کو استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں؟
ایک ذاتی سا سوال دل میں اٹھتا ہے: آزادی کیا صرف نعرہ ہے؟ یا یہ ایک ذمہ داری بھی ہے؟ اگر کشمیری عوام سچ میں آزادی چاہتے ہیں تو انہیں یہ طے کرنا ہوگا کہ دوست کون ہے اور دشمن کون۔ ورنہ یہ احتجاج، یہ نعرے اور یہ شورش محض صدا بہ صحرا ہی رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قربانی دیے بغیر آزادی کبھی کسی قوم کو نہیں ملی، اور کشمیر اس تاریخ کے بیچ سب سے زیادہ لہولہان مثال بن چکا ہے۔ |