دنیا کے بدلتے نقشے اور تیسری جنگِ عظیم کا خدشہ

حسیب اعجاز عاشر
دنیا کی تاریخ ہمیشہ طاقت کے توازن، جنگوں، معاہدوں اور مفادات کی بنیاد پر بدلتی رہی ہے۔ کبھی سلطنتیں زمین کے ایک حصے پر قابض ہو کر دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیتی تھیں اور کبھی ایک جنگ پوری دنیا کے نقشے کو نئے سرے سے ترتیب دے دیتی تھی۔ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے بعد دنیا ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ایک چھوٹی سی غلطی بھی انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا سکتی ہے۔
حالیہ دنوں میں دو واقعات نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے:بھارت کی جانب سے پاکستان پر جارحیت اور جواباً پاکستان کا چھ رافیل طیارے مار گرانا۔اسرائیل کا قطر پر حملہ۔ان دونوں واقعات نے صرف دو ممالک یا خطوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ طاقت کے اس کھیل نے عالمی سیاست اور دفاعی معاہدوں کے مستقبل پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد سے دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور بارہا سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ مگر حالیہ واقعہ غیر معمولی ہے، کیونکہ بھارت کے جدید رافیل طیارے، جنہیں فرانس سے بھاری سرمایہ لگا کر خریدا گیا تھا، پاکستان کے دفاعی نظام کے ہاتھوں ایک ہی جھٹکے میں ناکام ہو گئے۔پاکستان کی اس کامیابی نے نہ صرف بھارت کی عسکری برتری کے دعووں کو چیلنج کیا بلکہ دنیا کو یہ بھی دکھا دیا کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن اب بھی غیر متوقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ اگر یہ جھڑپ مزید بڑھتی ہے تو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اسی دوران اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا طوفان ہے۔ قطر، جو خطے میں عرب دنیا کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اسرائیل کے اس اقدام کے بعد براہِ راست تنازعے میں آ گیا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی فلسطین کے مسئلے پر دنیا بھر میں تنقید کا شکار ہے، اور اب قطر پر حملہ اس کے خلاف مزید نفرت اور مزاحمت کو بڑھا رہا ہے۔یہ صورتحال مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے بحران میں دھکیل رہی ہے، جہاں ایک طرف ایران اور اس کے اتحادی ہیں، دوسری طرف سعودی عرب، پاکستان اور اب قطر جیسے ممالک صف آراء ہیں۔
ان دونوں واقعات کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے نے عالمی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ معاہدہ محض دو ممالک کے درمیان تعاون نہیں بلکہ ایک نئے عالمی بلاک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان، جو ایٹمی طاقت ہے، اور سعودی عرب، جو مسلم دنیا کی قیادت اور تیل کی دولت رکھتا ہے، اگر ایک دفاعی اتحاد میں مضبوطی سے جُڑ جاتے ہیں تو یہ بلاک مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سیاست میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیل اور بھارت کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے لیے بھی ایک نئی چیلنج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا بھارت اور اسرائیل بھی ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں؟تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل پہلے ہی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ بھارت اسرائیل سے دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے، انٹیلی جنس تعاون حاصل کرتا ہے اور سفارتی سطح پر بھی ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر مستقبل میں بھارت اور اسرائیل اپنے تعلقات کو دفاعی معاہدے کی شکل دیتے ہیں تو یہ خطے میں طاقت کے دو بڑے بلاک کھڑے کر دے گا:ایک طرف پاکستان، سعودی عرب اور ممکنہ طور پر چین۔دوسری طرف بھارت، اسرائیل اور ممکنہ طور پر امریکہ۔ایسا منظرنامہ خطے کو براہِ راست ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
چین اس سارے منظرنامے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ چین نہ صرف پاکستان کا اسٹریٹجک اتحادی ہے بلکہ اس نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا لیا ہے۔ اگر پاکستان اپنا دفاعی دائرہ کار چین تک بڑھاتا ہے تو یہ اتحاد دنیا کے لیے ناقابلِ نظر انداز ہو جائے گا۔چین اور امریکہ کے درمیان پہلے ہی سرد جنگ کی کیفیت ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان اور سعودی عرب بھی چین کے قریب ہوتے ہیں تو یہ معاملہ براہِ راست عالمی طاقتوں کی صف بندی کو جنم دے گا۔یورپ پہلے ہی فلسطین کے حق میں اسرائیل کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے ۔
کیا دنیا تیسری جنگِ عظیم کے دہانے پر ہے؟یہ سوال اب محض ایک مفروضہ نہیں رہا بلکہ حقیقت کا رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جب دو ایٹمی طاقتیں (پاکستان اور بھارت) براہِ راست آمنے سامنے ہوں، جب اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان محاذ کھل رہا ہو، اور جب امریکہ اور چین اپنے اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں تو یہ سب حالات تیسری جنگِ عظیم کے خدشات کو بڑھا دیتے ہیں۔
دنیا آج اس مقام پر کھڑی ہے جہاں ایک چھوٹی سی غلطی ایک غیر محتاط فیصلہ، ایک حد سے زیادہ جارحانہ حملہ, لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کر سکتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار، کیمیائی اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جنگ صرف محاذ تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
نتیجہ .امن یا جنگ؟سوال یہ ہے کہ دنیا کس راستے کا انتخاب کرے گی؟کیا طاقت کے یہ کھیل دنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے؟یا عالمی قیادت دانش مندی کا مظاہرہ کر کے امن کی راہ ہموار کرے گی؟پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ایک امید بھی ہے اور ایک خطرہ بھی۔ امید اس بات کی کہ مسلم دنیا اپنی خودمختاری کے لیے متحد ہو رہی ہے۔ خطرہ اس بات کا کہ اس اتحاد کے ردعمل میں بھارت، اسرائیل اور دیگر طاقتیں بھی نئے معاہدے کر کے دنیا کو تقسیم کر سکتی ہیں۔دنیا کو آج ایک نئے عالمی امن معاہدے کی ضرورت ہے، ورنہ تاریخ ہمیں وہی دکھائے گی جو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ہوا تھا۔ انسانیت تباہ ہوئی، لاکھوں جانیں گئیں، اور آخرکار امن کی میز پر ہی واپسی ہوئی۔اگر عالمی قیادت نے عقل و شعور کا مظاہرہ نہ کیا تو ممکن ہے تیسری بار جب امن کی میز بچھے، تب زمین پر کھڑے ہونے والے انسان ہی باقی نہ رہیں۔،،
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 134 Articles with 154471 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More