پشاور میں تجاوزات کے خلاف کارروائی — عوامی حمایت اور انتظامیہ کی ذمہ داری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور شہر اپنی تاریخ، ثقافت اور روایتی بازاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ اندرون شہر کے گنجان بازار، کریم پورہ، قصہ خوانی، چوک یادگار اور دیگر علاقے نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہیں بلکہ یہ شہر کی شناخت کا حصہ بھی ہیں۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے یہ بازار اپنی اصل صورت کھو چکے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں پھیلی تجاوزات نے نہ صرف شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے بلکہ کاروبار، آمدورفت اور سماجی تعلقات پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
ایسے حالات میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پشاور کے مختلف علاقوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن بلاشبہ قابلِ تحسین ہے۔ چند روز قبل کریم پورہ اور دیگر اندرون شہر کے علاقوں میں برسوں سے قائم ناجائز قبضوں کو ہٹایا گیا۔ یہ قبضہ مافیا کئی سالوں سے عوام کی روزمرہ زندگی کو مشکل بنا رہا تھا۔ پشاور جیسے تاریخی شہر میں جہاں روزانہ ہزاروں لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں، وہاں دکانوں کے آگے غیر قانونی طور پر ٹھیلے لگانا، راستے بند کرنا اور زمین پر قبضہ کر لینا کسی طور قابل قبول نہیں۔کاروبار کا کوئی مخالف نہیں، لیکن کاروبار کے نام پر عوامی جگہوں پر قبضہ کسی طرح درست نہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا سوال ہے۔ جب سڑکیں بند ہو جائیں، خواتین اور بچیوں کے لیے گزرنا مشکل ہو جائے اور ایمبولینس تک راستہ نہ پا سکے تو یہ صرف تجاوزات نہیں بلکہ انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ پشاور کے شہری اور تاجر برادری کے سنجیدہ حلقے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔ وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ برسوں بعد انتظامیہ نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے نہ صرف بازاروں کی رونق بحال ہوگی بلکہ شہریوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ اگر بازار صاف اور کشادہ ہوں گے تو خریداری کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی بڑھے گی، جو بالآخر تاجروں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس طرح یہ قدم نہ صرف عوامی سہولت بلکہ تجارتی ترقی کے لیے بھی مثبت ہے۔تاہم، اس تمام تر عمل میں ایک افسوسناک پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ جن افراد نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، انہیں “ٹاوٹ” کہا گیا۔ یہ رویہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ صحافی کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ اگر وہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کو رپورٹ کر رہے ہیں تو یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ انہیں نشانہ بنانا دراصل آزادی صحافت پر حملہ ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض اوقات چند صحافی مخصوص تاجر تنظیموں یا طاقتور گروپوں کے زیر اثر بھی آ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام صحافیوں کو بدنام کیا جائے۔ صحافت کو خرید و فروخت کا ذریعہ سمجھنا، یا ہر مخالف آواز کو “ٹاو¿ٹ” قرار دینا، جمہوری اور صحافتی اقدار کے منافی ہے۔کچھ تاجر تنظیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ صحافی ان کے زیر اثر رہیں گے۔ اگر کوئی صحافی ان کی مرضی کے خلاف خبر دے دے تو فوراً اس پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف صحافت بلکہ کاروباری اخلاقیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ تاجر برادری کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ صحافی عوام کے نمائندے ہیں، ان کا مقصد حقائق کو سامنے لانا ہے، نہ کہ کسی گروہ کے مفاد کی حفاظت کرنا۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اور تشویشناک پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ کچھ تاجر حلقے اور عام شہری اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کے بعض گروہ پشاور میں قبضہ مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک پوسٹ سامنے آئی جس میں سماجی کارکن اور تاجر سمیع اللہ کیانی، صحافی فیصل آفریدی اور سپوتِ پشاور خان گل کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ یہ کردار پشاور کے بہترین باسیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے میں افغان مہاجرین کے کچھ عناصر سرگرم ہیں۔ ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ کل پاکستان کے خلاف زہر اگلتے تھے، آج وہ پاکستانی شہریوں اور ان کے نمائندوں پر حملہ آور ہیں۔ اصل میں یہ وہی قبضہ مافیا ہے جو برسوں سے پشاور کی زمین اور بازاروں پر قابض رہا۔ اب جب انتظامیہ نے ان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے تو یہ لوگ پاکستانی شہریوں اور صحافیوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر اتر آئے ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان نے ان افراد کو پناہ دے کر کیا واقعی درست فیصلہ کیا تھا؟ آج یہی عناصر نہ صرف معاشی اور سماجی مسائل پیدا کر رہے ہیں بلکہ شہریوں کی زندگی بھی اجیرن بنا رہے ہیں۔ عوامی رائے ہے کہ حکومت پاکستان اور خیبر پختونخوا انتظامیہ کو ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے اور انہیں واپس افغانستان بھیجنا چاہیے تاکہ پشاور کے باسی سکون کا سانس لے سکیں۔
اب یہ ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کو محض نمائشی نہ بنائے بلکہ مستقل بنیادوں پر جاری رکھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اکثر اوقات بڑے جوش و خروش سے آپریشن شروع ہوتے ہیں لیکن چند دن بعد سب کچھ واپس پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔ قبضہ مافیا اپنے تعلقات، دباو اور پیسے کے زور پر دوبارہ جگہ سنبھال لیتے ہیں اور عوام پھر وہی مشکلات جھیلتے ہیں۔
اگر انتظامیہ نے واقعی اس شہر کو صاف اور قابلِ رہائش بنانا ہے تو اسے بلا تخصیص کارروائی کرنی ہوگی۔ بڑے اور بااثر قبضہ مافیا ہوں یا چھوٹے غیر قانونی ٹھیلے، سب کے خلاف یکساں قانون لاگو ہونا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تجاوزات ہٹانے کے ساتھ ساتھ متبادل انتظامات کیے جائیں۔ چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے متعین جگہیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنا روزگار جاری رکھ سکیں اور دوبارہ تجاوزات پر مجبور نہ ہوں۔یہ آپریشن اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک انتظامیہ مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہ کرے اور عوام اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ شہریوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ سڑکوں پر خریداری کریں گے تو تجاوزات کو بالواسطہ طور پر تقویت دیں گے۔ اسی طرح تاجروں کو چاہیے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے شہر کے عوامی مفاد کو قربان نہ کریں۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے جو قدم اٹھایا ہے وہ یقیناً حوصلہ افزا ہے۔ برسوں سے قبضہ مافیا کے ہاتھوں یرغمال شہر کو اب ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔ بازاروں کی اصل رونق بحال ہوگی، عوام کا اعتماد لوٹے گا اور شہر کا حسن دوبارہ اجاگر ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب یہ آپریشن بلا تخصیص، مستقل بنیادوں پر اور عوامی تعاون کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ساتھ ہی، صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ اگر صحافت آزاد نہیں ہوگی تو عوامی مسائل کبھی سامنے نہیں آئیں گے اور طاقتور طبقے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔اب فیصلہ ضلعی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے: کیا یہ آپریشن محض چند دنوں کا شور ثابت ہوگا یا واقعی پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش؟ عوام اور تاجر برادری نے تو اپنی رائے دے دی ہے کہ یہ قدم خوش آئند ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظامیہ اس اعتماد پر کتنا پورا اترتی ہے۔ |