مشن خنجراب (وقار کا سفرنامہ) دوسری قسط
(M. Qasim Waqar Sialvi, Faisalabad)
پاک چائنہ بارڈر خنجراب پاس، ایک بائیکرز کی زندگی کا خواب ہوتا ہے اس جگہ تک جانا۔ ہم نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے سفر کی ٹھانی، کم وقت میں یہ سارا سفر مکمل کیا، سفر کیسا تھا اور کن کن مشکلات سے دو چار ہوئے جاننے کے لیے دوسری قسط کو ملاحظہ فرمائیں۔ اس ٹور کی دیگر تصاویر ہمارے فیس بک پیج وقار کا سفر نامہ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ |
|
|
بالاکوٹ سے آگے گزریں تو پولیس چیک پوسٹ پر لگا خوش آمدید والا بورڈ |
|
اس ٹور سے پہلے ایک پلان کمراٹ کا تھا، بیگ، بائیک، ہم بالکل تیار تھے، بڑی عید کے تیسرے دن روانہ ہونا تھا۔ آخری لمحات میں دوستوں نے سفر سے منع کر دیا۔ لاہور کے سینئر بائیکر اور نوجوان بزرگ ذکاء اللہ قادری صاحب کے ساتھ خنجراب پاس تک کا ٹور پلان کیا لیکن باوجوہ وہ بھی منڈھے نہ چڑھ سکا۔ باربار پلان بن اور ٹوٹ رہا تھا۔ اسی کو اللہ کی حکمت کہتے ہیں۔ خیر اب تو ہم باقاعدہ ٹور کا آغاز کر چکے تھے، ضلع جھنگ کے چھ افراد کے ایک گروپ سے رابطہ ہوا۔ پتا چلا خنجراب جا رہے ہیں۔ ان کو جوائن کرنے کیلئے رابطہ کیا، بالاکوٹ سے آگے پہنچ کے ان کا جواب آیا کہ ہم خنجراب نہیں سکردو جا رہے ہیں۔
یاد آیا ہماری تو موٹرسائیکل پنکچر ہو چکی تھی، پہاڑی علاقوں میں شام کا مطلب شام ہی ہوتا ہے۔ بازار بند، دکانیں بند، ہر طرف۔۔۔۔ہو ۔۔۔۔کا عالم۔ پاس ہی ایک ہوٹل تھا جو سیاحوں کی راہ تکتا تکتا مکمل شانت ہو چکا تھا کیونکہ اس علاقہ کی سیاحت گزشتہ سال مہانڈری پل نے روک دی تھی اس بار بابو سر کے تھک نالہ اور سیلاب نے۔ مقامی ہیلپ میں ایک عدد ہینڈ پمپ ملا۔ ٹائر ٹیوب لیس تھے اور موٹرسائیکل کے پچھلے ٹائر میں خود بخود پنکچر کو کور کرنے والا کیمیکل بھی ڈلوا رکھا ہے اس لیے سوچا ہوا بھر کے کام چلاتے ہیں۔ پمپ صاحب عرصہ دراز سے بند پڑے تھے شاید اچانک سے آنے والی اس بے سکونی کو برداشت نہ کر سکے اور اس کی بوکی ٹھس ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔ دل سے آواز نکلی۔۔۔ ایتھے رکھ۔۔۔۔
اب ایک مقامی باشندے نے مشورہ صادر کیا کہ چار کلومیٹر بعد کاغان ہے وہاں ہی دکان ملے گی، آپ کسی پک اپ پر لوڈ کرو بارہ تیرہ سو لے گا اور اتار دے گا۔ ہم نے پیدل مارچ کو ترجیح دی اور چل دیے کاغان کی طرف۔ ابھی چند قدم چلے ہونگے کہ ایک پک اپ جو بطور لوکل ٹرانسپورٹ اپنے روٹ پر رواں دواں تھی اس کو ہاتھ دیا، بات چھ سو روپے میں طے ہوئی، ایک خاتون اور بچہ پہلے سے موجود تھے ان کو فرنٹ سیٹ پر شفٹ کیا، تین لڑکے اور ہم دو مسافر اور ہماری موٹرسائیکل پیچھے لوڈ ہوئے اور سفر شروع ہوگیا۔
پہاڑی علاقوں میں ایک کلومیٹر بھی اچھی خاصی طبیعت سیٹ کر دیتا ہے یہ چار کلومیٹر کے آس پاس فاصلہ تھا اور شام تھی کہ ڈھلتی جا رہی تھی۔ کاغان پہنچے، پنکچر والے کی شاپ پر موٹرسائیکل کو ویگن سے اتارا۔ ماہر کاریگر نے بغور جائزہ لیا، ہوا بھری، تو معلوم ہوا کہ نامعلوم چیز لگنے سے ٹائر پنکچر ہو چکا ہے۔ اس کو ٹیوب لیس پنکچر جو ایک رسی ٹائپ چیز سے لگایا جاتا ہے وہ لگایا گیا، ہوا بھری، دس بارہ منٹ انتظار کیا گیا، پھر پریشر چیک کیا۔جو بحمدہ تعالیٰ اپنی جگہ پر جوں کا توں تھا۔ مطلب پنکچر لگ چکا تھا اور ہم سفر شروع کر سکتے تھے۔ دو سو پنکچر والے نے لیا گویا آٹھ سو کا پنکچر لگا 😜 پھر سے موٹرسائیکل پر سفر کا آغاز ہوا۔ اب سورج غروب ہو چکا تھا اور ہم ناران جا کے رکنا چاہتے تھے، سفر چِھک و چِھک جاری رکھا۔ پہلی پانی کی گزرگاہ کو کراس کیا تو یخ بستہ پانی کے چھینٹے جو ٹانگوں پر پڑے ہمارے تراہ نکال گئے۔ ساتھ ہی خبردار کر گئے کہ اگلی بار آبی گزرگاہ (water Crossing) سے گزرو تو دھیان رکھنا ہے اس کو بجلی کے بل کی طرح ہلکا نہیں لینا۔ اس کے بعد دو تین جگہیں آئیں بالکل آہستگی سے گزرے اور بہترین سفر رہا۔ ناران سے پہلے ایک بڑی آبشار آتی ہے جہاں ٹراؤٹ مچھلی کے چھوٹے حوض بھی بنے ہیں اور بیچ پانی کے چار پائیاں رکھ کے ریسٹورنٹ والوں نے ماحول بنا رکھا ہے۔ سیاح نہ ہونے کے برابر تھے اس لیے ہوٹل بھی نیم بند ہی تھا پانی کا بہاؤ کافی ہونے کی وجہ سے ہم نے بریک لگا دی، رات تھی، موٹرسائیکل کی لائٹس کی روشنی میں جائزہ لینا شروع کیا کہ گزرنا کتھوں اے؟ ایک جیپ والے صاحب تشریف لائے، سکون سے گزر گئے ہم نے ایسے جلدی میں پانی کی گہرائی اور بہاؤ کا اندازا لگایا جیسے آج کل حکومت سڑکیں بنانے کے ٹھیکے دے رہی کہ سڑک کی Look Black آنی چاہیے بے شک اوپر کوئلہ رگڑ دو، مٹیریل ناقص ترین لگا دو بس دو تین دن میں سڑک اوکے چاہیے۔ اندازہ لگایا کہ اس طرف سے جاتے ہیں اور وہاں جا کے تھوڑا الٹے ہاتھ ہوکے گزرنا ہے۔ بس موٹرسائیکل کو پانی میں ڈالا۔ آدھا سفر تو ٹھیک تھا، پاؤں اوپر اٹھا رکھے تھے کہ جوتے کم سے کم گیلے ہوں۔ مطلوبہ ٹارگٹ پر پہنچ کے بائیں طرف مڑ کے آگے گزرنا تھا۔ جیسے ہی بائیں موڑ کاٹا نیچے کھڈا تھا، پانی کا بہاؤ تیز اور نیچے پتھر پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ایک جگہ ساقط نہ تھے موٹرسائیکل ڈگمگائی پیر نیچے لگانے کی کوشش کی لیکن کھڈا گہرا تھا بس وہی ہوا جو آپ سوچ رہے ہیں۔ ہم اور ہمارے عشق کا گھوڑا یخ بستہ پانی میں ۔۔۔۔۔ یہ میں ہوں، یہ مقصود بھائی ہیں اور یہ ہماری موٹرسائیکل۔۔۔۔۔۔سب گلیشیر کے پویتر پانی سے بے وقت کا غسل کر رہے تھے۔ اپنی مدد آپ کے تحت اٹھے، موٹرسائیکل کو کھینچ کے پانی سے نکالا، موبائل فونز سمیت ہم اس غسل سے مستفید ہوچکے تھے، ٹینک بیگ تک موٹرسائیکل پانی میں لیٹ گئی تھی اسی لیے مکمل بھیگ چکے تھے، ابھی ناران دو تین کلومیٹر دور تھا۔ کچھ کوشش کے بعد بائک سٹارٹ ہو ہی گئی، گیلے کپڑے، پانی سے شرابور جوتے اور ناران کی ٹھنڈی ٹھار رات۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں ہنڑ سواد آیا بادشاہو؟ 🤣 ناران پہنچے، ایک ہوٹل والے سے بات کی (جس کے پاس گزشتہ سفر کے دوران رکے تھے) اس نے پچیس سو مانگے، سوچا مہنگا ہے سارا ناران خالی پڑا ہے تو کمرہ سستا ملنا چاہیے، ایک اور لڑکے نے آواز دی کمرہ چاہیے؟ ہاں چاہیے۔ کتنے پیسے؟ آپ ایک ہزار دے دینا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔ ہم ہوٹل میں جا پہنچے۔ کمرہ نیا، بہترین اور صاف ستھرا تھا۔ دوسری منزل پر کمرہ ملا تھا اور ہمارے جوتوں سے مسلسل پانی ٹپک ٹپک کے فرش پر ہمارے قدموں کے نشان ثبت کر رہا تھا۔
اگلا مرحلہ کپڑوں کو خشک کرنا اور کھانا کھانا تھا۔ بوٹ اتنے گیلے تھے کہ مزید پہنتے تو موجودہ ہارے ہوئے سیاست دانوں کی قسمت کی طرح یہ بھی مکمل کھل جاتے۔ سارا سامان بیگوں سے نکالا، بیڈ پر پھیلا دیا، تاکہ خشک ہو جائے، خود لباس تبدیل کیے جو آدھے گیلے آدھے خشک تھے، کھانے کی تلاش میں نکلے حالت یہ تھی کہ پاؤں میں واش رومز والے چپل تھے اور ہم ناران مین بازار میں جا پہنچے تھے۔ سردی واقعی لگ رہی تھی اس لیے پوری آدھا کلو رہو مچھلی آرڈر کر دی۔ کھانا کھا کے چہل قدمی شروع کر دی، جو چپل میں نے پہن رکھی تھی اس کی اوپر سے شکل ایک جیسی تھی لیکن پیر الگ الگ نسل کے تھے، ایک نارمل دوسرے میں برش نما نشان جو چلنے میں مسلسل دقت پیدا کر رہے تھے، سوچا ایک عدد جوتا خریدتے ہیں تاکہ دوبارہ ایسی صورتحال ہو تو دوسرا جوڑا موجود ہو۔ ایک فیصل آباد کے رہائشی مل گئے جو شرٹس، ٹراؤزر سر راہ فروخت کر رہے تھے ان سے Hood خریدے، ایک دکان سے 2000 کے جوگرز خریدے، جھیل سیف الملوک کی سمت جانے والے پل تک واک کی اور واپس آگئے۔ سونے کی کوشش میں ساری رات کروٹیں بدلتے رہے لیکن نیند نجانے ناراض تھی نہیں آئی۔ صبح چھ بجے سفر شروع کرنا تھا اور ہم چار بجے کے بعد گہری نیند میں جا پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
|
|