مشن خنجراب (وقار کا سفرنامہ) تیسری قسط

اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہم نے فیصل آباد سے خنجراب پاس تک اس سفر کو مکمل کیا۔ آپ اس کی دو اقساط ملاحظہ کر چکے ہیں، تیسری پیش خدمت ہے ۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گی۔ مزید تصاویر کے لیے ہمارے وقار کا سفر نامہ فیس بک پیج کوملاحظہ کر سکتے ہیں۔

بابوسر ٹاپ کے اس سنگ میل کے ساتھ تصویر نہ بنائیں تو جیسے بابوسر ٹاپ پہنچے ہی نہیں

مشن خنجراب
تیسری قسط
ناران میں صبح ہو چکی تھی، ہم آٹھ بجے کے قریب تیار شیار ہو کے ہوٹل سے نکلے، جو کپڑے پہنے تھے وہی سوکھے، باقی جوں کے توں گیلے تھے، چارو ناچار ان کو واپس بیگوں میں ٹھونسا اور بغیر ناشتہ ناران سے آگے بڑھ گئے۔ ناران سے بابوسرٹاپ کا راستہ اب تک کے اسفار میں مجھے سب سے اچھا لگا، ٹھنڈی ہوا، کھلی سڑکیں، کم رش اور صبح کا مناظر۔ مزے کو بھی مزہ آگیا۔

بٹہ کنڈی، بڑوئی، ، جلکھنڈ، بیسل، لولوسرجھیل، جا پہنچے۔ خوب دھوپ لگی تھی اور بھوک بھی خوب تھی۔ اس لیے ناشتہ کی بریک یہیں لگائی۔ حالانکہ ناران سے نکلتے ہی کسی ضدی بچے کی طرح ہر موڑ پر مون ریسٹورنٹ کے بورڈ نظر آئے، بندہ تو ایک بار چکرا ہی جاتا ہے کہ یا اللہ خیر ان کو کیا مسئلہ ہے؟ خیر ہم کو اونچی دکان سے کھانے کا شوق بالکل نہیں تھا۔ دوسرا میں تو سادہ آدمی ہوں اور مقصود صاحب ویسے ہی قدرتی ڈائٹ پر تھے، اس لیےلولو سر جھیل پر جا رکے، ہوٹل جو پہلے چھپر کی طرح کا تھا گزشتہ سال، اب باقاعدہ سردیوں کا اہتمام کیا جا رہا تھا اسے شیشے لگا کے، ائرٹائٹ کیا جا رہا تھا۔ ہم نے ایک عدد آملیٹ، دو پراٹھے، دو عدد چائے کا آرڈر دیا۔ اسی دوران بیگ، گیلے کپڑے، جوتے باہر لان میں بچھی کرسیوں اور ٹیبل پر پھیلا دیے، دھوپ اچھی اور تیز تھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔

بعد از ناشتہ چل دیے جھیل کا معائنہ کرنے(مطلب قریب سے نظارہ کرنے) ۔ کچھ پل اس کی پانی کی لہروں کی آواز کو سنتے رہے، ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھوئے، کچھ تصویر کشی کی اور واپس آگئے ہوٹل ہر۔ تب تک گیلے کپڑے اور بیگ اور جوتے بالکل خشک ہوچکے تھے۔ ان کو سمیٹا، سیفٹی گیجٹس پہنے اور سفر پھر سے شروع ہوگیا ۔

گیٹی داس کراس کرکے بابوسر کی چڑھائیاں استقبال کرتی ہیں۔ ایک سادہ سا فارمولا اس جگہ بہت کام آتا ہے کہ بائک کو پہلے گیئر میں کرو، ایک ہی سپیڈ رکھو ریس کی اور آہستگی سے سفر جاری رکھو، اگر ریس بڑھائی یا گھٹائی پھر ریسٹ لازمی ہے ۔ ورنہ بابوسر ٹاپ تک بآسانی پہنچا جا سکتا ہے ۔ سو ہم بھی بڑے سکون سے اوپر ٹاپ تک جا پہنچے۔ چیک پوسٹ پر روکا گیا، کہاں جانا ہے ؟ شناختی کارڈ نمبر اور موٹرسائیکل کا نمبر درج کیا گیا اور اجازت مل گئی۔ ہم بابوسر ٹاپ پر جا پہنچے۔ اکا دکا سیاح اور فیملیز موجود تھیں، بابوسر ٹاپ کم اور زپ لائن کا جنگل زیادہ لگتا ہے ۔ انھے وا زپ لائن کی تنصیب نے اس کے حسن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔ صفائی ستھرائی تو خیر پہلے ہی کونسا ترجیح تھی انتظامیہ کی۔ چائے نوش کرنے کا موڈ بنا، ایک ڈھابے پر آرڈر دیا۔ کہتا گرما گرم پکوڑے بھی ہیں۔ کہا دو تین پیس دے دو کافی ہیں، چائے والے کپ کی پرچ میں اس نے پکوڑے رکھ کے دیے اور روائتی الہ دین کے چراغ جیسے کپ میں چائے دے دی، جب بل پوچھا تو پورا پانچ سو روپیہ تھا۔ دو سو کے پکوڑے، تین سو کی چاء واہ بھئی واہ، واہ بھئی واہ۔

بابوسر ٹاپ کے سنگ میل کے ساتھ کچھ تصاویر بنائیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آویں۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ کے قیام کے بعد جانب چلاس اترنا شروع کیا۔ یہ سائڈ کافی امتحان والی ہے ، تنگ موڑ اور اچانک سے اترائیاں واقعی ڈرائیوری کا سالانہ امتحان ہی ہیں۔ اللہ اللہ کرکے بڑی اترائیاں اترے لیکن اس روڈ پر اترائی مسلسل چلاس زیرو پوائنٹ تک جاری رہتی ہے ۔ کچھ اترائی کے بعد تھک نالہ کے پل پر آ پہنچے جو ابھی تک ٹوٹا ہوا پڑا تھا اور عارضی پل پر سے ٹریفک گزر رہی تھی۔ یہی وہ نالہ ہے جس نے کچھ ماہ قبل بہت تباہی دکھائی، کافی گاڑیاں اور لوگ پانی میں بہہ گئے تھے۔ روڈ کو مشینوں کی مدد سےکلیئر کر دیا گیا تھا لیکن پل کی مرمت یا نیا بنانے کا تاحال دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

بابوسر ٹاپ کے فریزر سے نکل کر جب چلاس کے اوون میں پہنچتے ہیں تو طبیعت سیٹ ہو جاتی ہے گرمی سے ۔ ہمارا پہلے ہی چلاس رکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا اس لیے سفر کو مسلسل جاری رکھا۔ انڈس ریور یعنی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ جانب گلگت سفر جاری رہا۔ نیشنل ہائی وے نمبر 35 پر سفر شروع ہو چکا تھا۔ چلاس سے گلگت کا فاصلہ تقریبا 133 کلومیٹر ہے ۔ یہ روڈ دریا کے کنارے کنارے آگے بڑھتا رہتا ہے اور یہ دریا گلگت تک ساتھ ہی رہتا ہے ۔ اس سیشکن میں بہت لمبی لمبی لینڈ سلائڈنگ آتی ہیں جو ریت اور مٹی سے بھرپور ہیں، اب تک اگر گرد و غبار سے واسطہ نہ پڑا تو ساری کسر یہ سیکشن نکال دیتا ہے ۔ ٹریفک بھی معلوم کے مطابق ہوتی ہے، بس والوں کی افراتفری اور جیپ والوں کی اوور سپیڈنگ کےسامنے موٹرسائیکل سوار بس صبر شکر سے ہی رہ سکتے ہیں۔

رائی کوٹ پل پر انٹری ہوئی، یہیں سے فیری میڈوز کا راستہ نکلتا ہے ۔ میں گیا تو نہیں ہوں لیکن بقول بائیکرز حضرات یہ راستہ جیپ کا ہے اور جیپ والے راستہ بننے ہی نہیں دیتے۔ اب شمالی علاقہ جات میں جیپ والے موٹرسائیکل والوں کو اپنی سوکن سمجھنے لگنے ہیں کہ یہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں، خیر انٹری کے بعد پل کراس کیا اور گلگت کی طرف سفر جاری رکھا۔ آگے استور کا جنکشن آتا ہے (گلگت میں چوک کو جنکشن لکھ رکھا ہے)۔ ہم نے سیدھا گلگت کی طرف سفر جاری رکھا۔ اگلا پڑاؤ مشہور و معروف مقام جگلوٹ پر ڈالا۔ خجراب پاس جانے والے احباب کے لیے یہ پہلا بیس کیمپ کہلاتا ہے ۔ یہاں ہوٹل، کھانے اور فیول ٹینک فل کروانے کا مناسب بندوبست ہوتا ہے ۔ ہم نے یہاں ظہرانہ تناول کیا، دال ماش، چائے، سادہ روٹی بل 700 روپے اداکر دیا۔ ایک بار تو دل چاہا کہ گلگت میں اپننے میزبان عثمان بھائی سے معذرت کرکے سیدھا خنجراب کی طرف نکلتے ہیں جتنا سفر آج ممکن ہوا کرتے ہیں، باقی صبح کرکے خنجراب جا پہنچیں گے لیکن جب ان کو کال کی تو وہ نہ مانے، کہا رات گھر قیام کرو اور صبح 6 بجے نکل جانا۔ آرام بھی ہوجائے گا اور سفر بھی انجوائے کرو گے ۔

ہم نے خجراب کی سمت جانے کی بجائے گلگت شہر کا رخ کر لیا۔ کونوداس ہماری منزل تھی۔ ایک پل پر کوئی احتجاج ہو رہا تھا ٹریفک جام تھی، ٹریفک پولیس والے نے جب ہم کو دیکھا کہ مہمان ہیں اور پھنس گئے ہیں تو ہمارے پاس آکے ایک بائک والے سے کہا کہ ان کو اوپر گلی سے لے جاؤ، مہمان ہیں یہاں پریشان ہو رہے ہیں۔ (دل جیت لیا ہمارا اس عمل نے) اس بائک والے نے بہت محبت سے کہا کہ میرے پیچھے آجائیں، پولیس والے نے حوصلہ دیا کہ آپ اس کو فالو کریں احتجاج نہیں معلوم کب تک جاری رہے ، آپ پریشان ہونگے۔ ہم چل دیے، دو تین گلیوں سے گھوم گھما کے احتجاج والے چوک کو کراس کرگئے، اس موٹرسائیکل والے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھ گئے۔

انجینئر عثمان غنی صاحب کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہمارا منتظر تھا۔ گھر پہنچے، سیفٹی گیجٹس اتارے، نہا کے فریش ہوئے، ہائی ٹی سے تواضح ہوئی، اسی دوران ان کے بچے آ پہنچے اور بس پھر سیفٹی گیجٹس اور ہیلمٹ کا باقاعدہ معائنہ شروع ہوا جس کی ایک جھلک تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک ایک چیز پر چار چار مرتبہ بریفنگ دینا پڑی کہ اس کا کیا مقصد ہے اس کا کیا مقصد ہے ، ننھے علی نے تو کہنیوں پر لگانے والے اپنی ٹانگوں پر چڑھا لیے اور رات تک مسلسل پہن کے رکھے کہ میں گر جاتا ہوں تو چوٹ نہیں لگتی ان سے ۔ عشاء کے قریب ہم بازار کی طرف چل دیے لیکن یہاں بھی میں مارکیٹ عشاء تک بند ہوجاتی ہیں، دریا کے کنارے کچھ دیر پتھروں پر بیٹھ کے ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لیتے رہے، جب سردی بڑھنے لگی تو گھر واپس آگئے، استاد گوگل سے رہنمائی مانگی کہ خجراب کا سفر بتا دو۔ اس نے سوست تک کا بتایا جو 180 کلومیٹر بنتا تھا۔ بمطابق سنگ میل خنجراب پاس 300 کلومیٹر بنتا ہے۔ مقصود بھائی سے مشورہ کیا کہ ہم صرف ہنزہ تک چلتے ہیں۔ پہاڑی علاقہ کا 300 کلومیٹر ایک سائڈ اور ڈبل سائڈ 600 کلومیٹر طبیعت سیٹ کردے گا۔ ہنس کے بولے طبیعت سیٹ کرنے ہی تو آئے ہیں، اب خنجراب ہی جانا ہے۔ جب ہم سفر تیار ہوتو پھر کون رکنے والا ہوگا؟ رات کا کھانا تیار تھا، کھانا کھا کے صبح ساڑھے پانچ کا الارم لگا کے سوگئے کیونکہ صبح ہم نے خجراب تک سفر کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )

 

M. Qasim Waqar Sialvi
About the Author: M. Qasim Waqar Sialvi Read More Articles by M. Qasim Waqar Sialvi: 71 Articles with 32058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.