پاک ملائیشیا تعلقات اور معاشی امکانات

غلام مرتضیٰ باجوہ

وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ملائیشیا کے دوران ان کا فقیدالمثال استقبال دونوں ممالک کے دیرینہ اور مخلصانہ تعلقات کا مظہر ہے۔ ملائیشیا کی آزادی کے فوراً بعد 1957ء میں جب پاکستان نے اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے، تو شاید کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ آنے والے برسوں میں یہ تعلقات دوستی، تعاون اور مشترکہ ترقی کے ایسے گہرے رشتے میں بدل جائیں گے۔آج پاکستان اور ملائیشیا نہ صرف مذہبی و ثقافتی رشتوں سے منسلک ہیں بلکہ تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، تعلیم، زراعت اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بھی ایک دوسرے کے حقیقی شراکت دار بن چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نے جس تیزی سے فروغ پایا ہے، وہ جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا میں تعاون کی نئی جہتوں کو جنم دے رہا ہے۔
گزشتہ سال ملائیشیا کے وزیراعظم داتو سیری انور ابراہیم کے پاکستان کے دورے کے دوران تجارت، سرمایہ کاری، دفاع اور زراعت کے شعبوں میں متعدد معاہدے ہوئے جنہوں نے دو طرفہ تعلقات کو نئی توانائی بخشی۔ حالیہ دورے میں وزیراعظم شہباز شریف اور انور ابراہیم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2024ء میں پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 1.47 ارب ڈالر رہا، جس میں پاکستان کی برآمدات 51 کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 96 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔ اگرچہ تجارتی توازن ابھی ملائیشیا کے حق میں ہے، تاہم پاکستان کے لیے اس فرق کو کم کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔پاکستان زرعی اجناس، چاول، گوشت، ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سامان اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کر کے اس فرق کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ خاص طور پر ملائیشیا میں ”حلال فوڈ“ انڈسٹری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب پاکستان کے لیے ایک بڑی تجارتی گنجائش پیش کرتی ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نے خود مشترکہ پریس کانفرنس میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کا ملک پاکستان سے چاول اور حلال گوشت کی درآمدات بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان مختلف تجارتی و زرعی تعاون کے معاہدے پہلے سے موجود ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد کی رفتار ہمیشہ سست رہی ہے۔ محض معاہدوں پر دستخط کافی نہیں، بلکہ ان کی باقاعدہ مانیٹرنگ، پالیسی فالو اپ، اور کاروباری حلقوں کو فعال کردار دینا ضروری ہے۔ اکثر اوقات سربراہانِ حکومت کے دوروں کے موقع پر اعلانات تو بھرپور جوش و خروش سے کیے جاتے ہیں، مگر عملی سطح پر اقدامات نہ ہونے کے سبب وہ اعلانات وقتی خبروں تک محدود رہ جاتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک اس روایت کو بدلیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی وزارت تجارت اور سرمایہ کاری بورڈ کے ذریعے مشترکہ کاروباری کونسلوں کو ازسرنو فعال کرے، اور ملائیشیائی سرمایہ کاروں کو زراعت، آئی ٹی، سیاحت اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں میں خصوصی مراعات دے۔ دوسری جانب ملائیشیا بھی پاکستانی برآمدکنندگان کو ترجیحی مارکیٹ ایکسیس دے کر توازن قائم کر سکتا ہے۔
ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا کی ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معیشت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ صنعتی ترقی، تعلیم یافتہ افرادی قوت، مستحکم پالیسی فریم ورک، اور کرپشن فری نظامِ حکومت نے اسے ایک ماڈل ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ تجربہ سیکھنے کے بے شمار مواقع رکھتا ہے۔ملائیشیا کی صنعتی پالیسیوں کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ مقامی صنعت کو بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ جوڑتی ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور معیشت خود کفالت کی جانب بڑھتی ہے۔ اگر پاکستان زراعت، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں اسی ماڈل کو اپنائے تو قلیل عرصے میں خاطر خواہ معاشی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
وزیراعظم انور ابراہیم کا یہ جملہ کہ ”دوستی کا ہاتھ کبھی خالی نہیں ہوتا“ دراصل پاکستان کے ساتھ ان کے خلوص، باہمی احترام اور عملی تعاون کے جذبے کا عکاس ہے۔ انہوں نے کھلے عام اعلان کیا کہ ملائیشیا پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے تیار ہے۔یہ عزم دونوں ممالک کے کاروباری طبقے کے لیے ایک امید افزا پیغام ہے۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ تجارتی اتحاد، علاقائی انضمام اور اقتصادی بلاکس کی تشکیل نے عالمی تجارت کے ڈھانچے کو نئی شکل دی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ملائیشیا کے لیے باہمی تعاون صرف دو ممالک تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی کی راہیں کھول سکتا ہے۔
پاکستان، جنوبی ایشیا کا ایک گیٹ وے ہونے کے ناطے، چین اور وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے جبکہ ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اقتصادی اشتراک نہ صرف باہمی خوشحالی کا ذریعہ بنے گا بلکہ اسلامی دنیا میں اقتصادی تعاون کی ایک نئی مثال بھی قائم کرے گا۔ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی توجہ زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور مغربی دنیا پر مرکوز رہی، جس کے باعث مشرقِ بعید کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں ایک خلا پیدا ہوا۔ اب جبکہ عالمی اقتصادی مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک خصوصاً ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، اور ویتنام کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دے۔
یہ ممالک پاکستان کے لیے بڑی برآمدی منڈیاں ثابت ہو سکتے ہیں، جبکہ ان کی صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی کے تجربات سے پاکستان اپنے صنعتی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کر سکتا ہے۔پاک ملائیشیا تعلقات ایک نئی بنیاد پر استوار ہو رہے ہیں۔ اگر دونوں ممالک اپنے باہمی وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں، سرمایہ کاری کے بہاؤ کو آسان بنائیں، اور نجی شعبے کو شراکت دار کے طور پر شامل کریں تو آئندہ چند برسوں میں یہ تعلقات اقتصادی شراکت داری کی ایک کامیاب مثال بن سکتے ہیں۔پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ مسلم ملک کے تجربات سے فائدہ اٹھائے اور دوستی کو معاشی خوشحالی کی بنیاد میں تبدیل کرے۔ یقیناً اگر نیت خالص اور سمت درست ہو تو“دوستی کا ہاتھ”نہ صرف خالی نہیں رہتا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ترقی، اعتماد اور خوشحالی کے پھول کھلاتا ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 45 Articles with 39827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.