اقبال شناسی اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

اقبال شناسی اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
سات دہائیوں سے علم و ادب اور فنِ تنقید و تحقیق کی خدمت پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اردو تحقیق وتنقید میں ان کا حوالہ ایک معتبر اور مستند محقق کا ہے۔ان کی علمی او ادبی خدمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فی زمانہ بہت کم محققین ایسے ہیں جنہوں نے اس کثرت سے تحقیقی کارنامے سر انجام دیے ہوں۔اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے دورِ حاضر میں ادیبوں کے لیے اقدار وروایات کی ایک مثال قائم کی ہے، تو بے جانہ ہوگا۔ڈاکٹر صمدانی عصرِ حاضر کے ان محققین اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی تحقیقی وتخلیقی تصنیفات نے محض اردو تحقیق کو نئے امکانات ہی سے روشناس نہیں کرایا بلکہ اردو شعر وادب اور ادباء و شعراء کے حالاتِ زندگی اور تخلیقات کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے۔انہوں نے نہ صرف مقبول ادیبوں اور شاعروں پر قلم اٹھایا ہے بلکہ گمنام شخصیتوں کو منظرِ عام پر لانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی 40سے زیادہ تصانیف و تالیفات اور 1500سے زائد مضامین،کالم، تقاریظ و مقدمات اور پیشِ لفظ وتبصرے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے لکھنے کی صلاحیت سے مالا مال کر رکھا۔گویا خالقِ کائنات نے ان کے دماغ اور قلم کو ایک دوسرے کا ہم رکاب بنایا ہے۔ دماغ جو سوچتا ہے، دل اس کی گواہی دیتا ہے اور ان کا تحقیقی عمل اسے قرطاسِ ابیض پر بکھیر دیتا ہے اور یوں ان کا خیال اور تحقیق دونوں سے عوام الناس استفادہ کرتے ہیں اور طلاب اسے اپنے لیے تحقیق کا ذریعہ بناتے ہیں۔
پروفیسرصمدانی صاحب نے نثری ادب کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جس پر قلم نہ اٹھایا ہو۔اگرچہ ان کی علمی خدمات کا بڑا حصہ لائبریری سائنس، کالم نگاری، اور سوانح نگاری پر مشتمل ہے؛ لیکن انہوں نے فکرِاقبال پر مختلف مواقع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ وہ علامہ اقبالؒ کے معتقد ہیں اور ان کے کلام اور مکاتیب کو مسلمانوں کے لئے بالخصوص اور تمام انسانوں کے لئے بالعموم سرمایہ حیات تصور کرتے ہیں۔ وہ علامہ ؒ کے کلام سے اپنے دور شباب سے استفادہ کرتے رہے ہیں لیکن ان کی علامہ اقبال ؒ پر کو ئی باقاعدہ تالیف و تصنیف نہ تھی۔ انہوں نے یہ معرکہ بھی اب سر کر لیا ہے اور اپنے مضامین، تقاریض، پیشِ لفظ، دیباچے اور مقدمے ”اطاقِ اقبال میں چند لمحات“ کے عنوان سے سے مرتب کر دیے ہیں۔
”اُطاقِ اقبالؔ‘ میں چند لمحات“ کے عنوان سے لکھا گیا ایک مضمون بھی اس مجموعے کا حصہ ہے۔ڈاکٹر صمدانی صاحب نے قاری کی سہولت کے لیے عنوان کے بعد بریکٹس میں ”جی۔سی۔ یونیورسٹی لاہورسابق گورنمنٹ کالج لاہور کے ہاسٹل کا وہ کمرہ جس میں علامہ اقبال نے پانچ سال قیام کیا“، لکھ دیا ہے۔ راقم الحروف کو اسی عظیم ادارے کا طالبعلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے اوراتفاق کی بات ہے جب محترم صمدانی صاحب گورنمنٹ کالج لاہورتشریف لے گئے تو دورِ جدید کے برقیاتی پیغام رسانی کے سلسلے کی بدولت میں ان سے رابطے میں تھا جس کا ذکر انہوں نے اس مضمون میں بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے علامہ اقبال ؒ کے کمرے کا سراغ لگانے کی ساری داستان اپنے اس مختصر سے مضمون میں بیان کردی ہے اور اس کمرے کا درشن بھی کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی صاحب کو چونکہ مرقع کاری کا فن آتا ہے؛چنانچہ دیکھیے کس خوبصورتی اس کمرے کو ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔”اس چھوٹے سے کمرہ کے باہر ایک چھوٹی سی تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے ”اُطاق اقبال“۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا لیکن یہ حقیقت تھی میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمرہ میں موجود تھا۔ کمرہ کی لمبائی چوڑائی مشکل سے 12x10 فٹ ہوگی۔ صاف ستھرا، لوہے کا ایک چھوٹا سا بیڈ جس پر معمولی سی چادر، ایک میز، ایک کرسی، دیوارپر چند تصاویر جن میں سے ایک تصویر علامہ اقبال کی وہ ہے جس میں وہ بیڈ پر اس طرح لیٹے ہوئے ہیں کہ ان کا سیدھا ہاتھ ان کی گردن اور سر کے نیچے، گویا آدھے لیٹے ہوئے، بڑی نالی والا حقہ جس کی نالی ان کے منہ تک پہنچ رہی ہے۔ اسی طرح چند دیگر تصاویر بھی دیواروں پر آویزاں ہیں“۔
”اطاقِ اقبال میں چند لمحات“میں ڈاکٹر صمدانی صاحب نے کل بیس شہ پارے شامل کیے ہیں۔ ایک کا ذکر اوپر ہو چکا دیگر میں اقبالؔ ایک نابغہئ روز گار شخصیت، اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے، اقبال ؔ اور فلسطین، اقبال کا فلسفہ زماں و مکان، اقبال کا بندہئ مزدور، بچوں کے اقبال، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال پر اولین تصنیف، فرزندِ اقبال(جسٹس ڈاکٹرجاوید اقبال)،اقبال اپنی تصانیف کے آئینہ میں، یوم اقبال 9نومبر2024ء اقبال اور جدید دنیا ئے اسلام: مسائل، افکار او تحریکات: پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل، محمد ﷺ سے وفا: شرح شکوہ اور جواب شکوہ/شارح: ڈکٹر عابد شیروانی، دَر برگِ لالہ و گل(کلام اقبالؔ میں مطالعہ بناتات) /مصنف افضل رضویؔ (جلد اول)، دَر برگِ لالہ و گل(کلام اقبالؔ میں مطالعہ بناتات) /مصنف افضل رضویؔ (جلد دوم)، دَر برگِ لالہ و گل(کلام اقبالؔ میں مطالعہ بناتات) /مصنف افضل رضویؔ (جلدسوم)، شاعرِ مشرق کے حیات و افکار / طارق محمود مرزا، اسپین: اقبال کا دوسرا خواب (شرح نظم، مسجد قرطبہ (بال جبرئیل)/شارح: ڈاکٹر عابد شیروانی، آسٹریلیا میں اقبالیات کی خشتِ اول/ افضل رضوی /ڈاکٹر عزیز الرحمن عزیز، شامل ہیں۔
علامہ اقبال ؒ کے علم وفن پر تحقیق میں میری عمر کا گراں قدر حصہ گزرا ہے اور الحمد للہ علامہ ؒ کے نہ صرف کلام بلکہ ان کی دیگر تصنیفات سے بخوبی آگا ہ ہوں اور شعر کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتا ہوں کہ یہ بیسویں صدی کے نابغہئ روزگار کا شعر ہے یا کسی نے محض سستی شہرت کی خاطر سوشل میڈیا پر پبلش کر دیا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کو بیک وقت فلسفہ اور وجدان کا گہرائی تک علم تھا یہی وجہ ہے کہ ان سے منسوب بہت سے قصے بھی مشہور کر دیے گئے ہیں۔ علامہ اقبال سے میری وابستگی مجھے یہ کہنے پر اکساتی ہے کہ ہمیں ان کے کلام کو دل اور دماغ دونوں کو یکجا کرکے اس طرح اپنے اوپر طاری کرنا چاہیے جیسے ہم خود علم و حکمت کی یہ باتیں بیان کر رہے ہوں؛ کیونکہ کلام ِ اقبال سے استفادہ کرنے کا یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔
ڈاکٹر صمدانی صاحب نے ”اقبالؔ ایک نابغہئ روز گار شخصیت“ میں ایک جگہ لکھا ہے،” بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کا کہنا تھا کہ”علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شُعراء اور مفکرین میں کیا جاتا ہے۔ اُن کی حیات ہی میں انہیں ’شاعر مشرق‘ کہا جانے لگا“۔ای ایم فاسٹر کا کہنا ہے کہ”یہ بھی ہمارے شہنشاہانہ طرزِ حکومت کا ایک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعرِ جس کا نام گزشتہ دس برس سے اُس کے ہم وطن مسلمانانِ ہند میں بچے بچے کی زبان پرہے، اُس کے کلام کا ترجمہ اس قدر عرصے کے بعد جاکر ہماری زبان میں ہوسکا۔ ہندُؤوں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے‘ وہی مسلمانوں میں اقبالؔ کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے۔“
یہ بات اقبال شناسوں پر اظہر من الشمس ہے کہ حکیم الامت ؒ پر تحقیقی و تنقیدی کام ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صمدانی کا مضمون بعنوان”اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے“ نئی نسل کے لیے بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے۔”اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کو سمجھنا اتنا آسان نہیں، جیسے جیسے کوئی ادیب، فلسفی، شاعر، محقق اقبال کی شخصیت و افکار پر تحقیق کرتے ہیں، معلوم یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اقبال کے کلام اور افکار و نظریات، تصانیف کو سمجھنا، زیر بحث لانا پھر اس پر قلم اٹھانا آسان کام نہیں“۔علامہ اقبال نے اپنی نظم ”زہد اور رندی“میں اس بات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوُف کی تو مَنصُو ر کا ثانی
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبالؔ کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اس کتاب میں ایک اور نہایت ہی اہم موضوع پر لکھا گیا مضمون ”اقبال اور فلسطین“ ہے، جس میں رواں صدی میں اہل فلسطین پر کیے جانے والے ظلم و ستم کو افکارِ اقبال کی روشنی میں منصہ شہود پر لایا گیا ہے۔اسی تناظر میں راقم الحروف نے بھی حال ہی میں اردو، عربی اور انگریزی تین زبانوں میں نظم لکھ کر اقوام عالم کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے۔”اقبال کا فلسفہ زمان ومکاں“ مباحثِ فکر اقبال میں خودی کے بعد اہم ترین مسئلہ رہا ہے جسے ڈاکٹر صمدانی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”اقبال کی فکر و فلسفہ کا مرکز اور شاعری و نثر نگاری میں قرآن کریم فرقان حمید رہا اور ان پر ایسی لازوال حقیقتیں منکشف ہوئیں جو کسی اور کے حصے میں دکھائی نہیں دیتیں۔ اقبال کے تصورات ا سلامی اور فلسفیانہ ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں زماں و مکاں کے بے شمار ذیلی موضوعات و افکار خاص طور پر سائنسی اور فلسفیانہ تصورات کو موضوع بنایا۔“ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب نے ”بندہئ مزدور“کے موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے،”علامہ اقبال کا ایک شعر جو اقبال کے بندہ ئ مزدور کی پہچان کراتا ہے۔
تو قادرو عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہئ مزدور کے اوقات
کس قدر حق وسچ، دل کو لگتی بات اقبال نے محنت کش طبقہ کے بارے میں کہی ہے۔ اقبال تو مزدور کا درداور کسک رکھتا تھا اس نے محنت کش کی محنت کا احساس کیا اور اسے اشعار میں پیش کردیا۔“اسی طرح”بچوں کے اقبال“ میں انہوں نے علامہ اقبال ؒ کی نظموں کے حوالہ جات سے ادبِ اطفال کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ان کی محققانہ نظر تاریخ کے اوراق میں گم ایک ایسا موضوع بھی نکال لائی جس پر شایداس طرح ان کے سوا کسی اور نے قلم نہیں اٹھایا،”علامہ اقبال ان چند علمی وادبی شخصیات میں سے ہیں کہ جن کی زندگی میں ہی ان کی شخصیت، نیز شعری و نثری افکار کو ضبط تحریر میں لانا شرو ہوگیا تھا۔ علامہ اقبال پر لکھنے والوں میں ایک اہم نام ’مولوی احمد دین‘ کا ہے جنہوں نے اقبال کی زندگی ہی میں اقبال پر کتاب تحریر کی۔ “
علاوہ ازیں دیگر تقاریض اور دیباچوں میں بھی انہوں نے نہایت جانفشانی سے موضوعات کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس کتاب میں موجود ہر مضمون پر اظہارِ خیال کیا جائے؛لیکن دیباچے کی طوالت آڑے آرہی ہے،اس لیے جن مضامین پر اس دیباچے میں سطریں نہ ملیں، قاری خود مضمون پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگا لے گا کہ تحقیقی تحریر کیسی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈاکٹر صمدانی صاحب کے نوکِ قلم سے نکلے الفاظ قاری کوخود باور کرائیں گے کہ کسی موضوع سے انصاف کیسے کیا جاتا ہے۔
مجھے امیدِ واثق ہے کہ قارئین ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کی اس نئی کاوش سے اپنی علمی پیاس بجائیں گے اور ان کی معلومات میں بھی گراں قدر اضافہ ہو گا۔ میں جناب صمدانی صاحب کو اقبالیاتی ادب میں ایک اور کتاب کے اضافے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ان کا قلم اسی طرح علم وادب کی خدمت میں مصروفِ کار رہے، آمین!
8جون2025 ء افضل رضویؔ
صدر پاکستان- آسٹریلیا لٹریر ی فورم(پالف)
آسٹریلیا


Dr Afzal Razvi
About the Author: Dr Afzal Razvi Read More Articles by Dr Afzal Razvi: 130 Articles with 226658 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allamah
.. View More