ہوٹل سے نکل کر ہم اہل خانہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے مسجد نبوی کی طرف چلتے چلے جارہے تھے۔
صاف ستھری جدید بنی ہوئی سڑکیں تھیں۔ دائیں بائیں ون ریال شاپس تھیں۔جو بہت جدید اور خوبصورت بنی ہوئی تھیں۔ جنکے باہرطرح طرح کی جیولری، ہینڈی کرافٹس، کپڑے ، جائے نمازیں ، تسبیحات، ٹوپیاں گھڑیاں، کھلونے ، چھوٹے چھوٹے لیمپس اور نجانے کیا کیا کچھ نہیں ,سجایا گیا تھا اطراف میں دکانوں پر فاسٹ فوڈ اور ایسی ہی دیگر نمکین و میٹھی اشیا بک رہی تھیں۔ انکی بہت مزے کی خوشبو بھی بھوک چمکا رہی تھی۔ ان اشیا سے تین دنوں میں، میں نے خوب استفادہ کیا تھا۔
بہت سی جہگوں پر کبوترگروپس بنائے اڑ رہے تھے۔ اور اتنا قریب تھے کہ میں نے انکے ساتھ اور درمیان کھڑے ہو کر انکی ویڈیوز بنائیں مگر وہ پھر بھی نہ ڈرے تھے۔
ہوٹل سے مسجد نبوی تک جاتی سڑک کو خوب شاندار انداز میں سجایا گیا تھا۔ سڑکوں پر درختوں کو لگایا گیا تھا جو کہ بالکل نئے تھے اور ہر درخت کے چاروں طرف سیمنٹ اور ماربل لگے بنچز تھے۔ان بنچز پر شام کے وقت بیٹھنا بہت مزے کا کام لگتا تھا۔
مسجد کی حدود میں ہم عصر کے بعد داخل ہوریے تھے۔ بھائی لوگ مردانہ اور ہم لوگ آگے حصہ زنانہ کی طرف بڑھنے لگے اور جب مسجد کی حدود میں داخل ہو گئے تو آنسو پتہ نہیں آںے کی خوشی میں اتنی تیزی سے کیوں بہنے لگے تھے۔ ان پر انسان کا اختیار ہو کر بھی نہیں ہوتا۔ اس مقام پر تو انسان خاص طور پر رونا اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے ہی آتا ہے۔ جب تک نماز کی جگہ پہنچ نہیں گئے جب تک نماز کے لئے کھڑے ہوئے انھوں نے خوب ساتھ دیا۔
آس پاس چلتے لوگ آس پاس کے نظارے سب کچھ ہی آںکھوں سے فراموش ہو گیا تھا۔ نظر صرف اس سنہرے کام سے مزین دروازے پرتھی جو ہمیں سکرینز پر نظر آتا ہے۔ اللہ اللہ آج میں اصل میں اس دروازے کے سامنے کھڑی ہوں۔ عصر مغرب عشاء پڑھی اور آگلے دن جلدی آنے کا عہد کیا تاکہ فجر بھی پڑھ سکیں اور فجر پڑھی بھی کیونکہ اسی دن تو ریاض الجنۃ پر نوافل پڑھنے کی تاریخ ملی تھی۔
سو اگلی صبح کا بے چینی سے انتظار تھا۔
الارم کی آواز سے آنکھ کھلی ،میں تو خاص طور پر بند آنکھوں کے ساتھ مسجد پہنچی۔ مگر جوں جوں مسجد قریب آتی گئی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں ۔ کیونکہ جب صبح دیکھا اور منظر ۔۔۔۔۔۔۔شام اور۔۔۔۔۔۔۔ تہجد کے وقت اور
تہجد پڑھ کر صحن میں بیٹھ کر فجر کا انتظار کرنے لگے تھے اور پتہ ہے اس وقت بہت ہی مزے کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اور پھر آہستہ آہستہ سوج کی روشنی پھیلنے لگی۔ آسمان سے اندھیرا ہٹ رہا تھا۔ ہلکی نارنجی سی بالکل ہلکی گلابی سی روشنی آسمان پر کہیں دور سے سورج کے نکلنے کا پتہ دے رہی تھی۔ آہستہ آہستہ رات والی خنکی کم ہو رہی تھی۔اب دن کی گرمی کا آغاز ہو رہا تھا۔
اور جب صحن میں کھڑے سر اٹھایا تو چھتریاں آہستہ آہستہ کھولی جارہی تھیں۔ آنکھ میں آنسو اور حیران و پریشان خوش وخرم آنکھیں یہ منظر مقید کر رہی تھیں۔
اللہ اللہ
پھر ریاض الجنہ میں حاضری کی باری
لائن میں کھڑے تھے۔بیرئیرز لگا کر قطار کو سیدھ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اپنے کارڈز اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہر کوئی اپنا اجازت نامہ دکھا کر اندر جانے کے لئے بے چین تھا۔ پھر باری باری ۔۔۔۔ باری آہی گئی۔
اطراف میں سکون کو محسوس کیا ۔ اگر دنیامیں جنت کا ٹکڑا آپکو اتنا سکون دے سکتا ہے تو آخرت میں جنت کتنا سکون دے گی۔اس دفعہ میں نے خیال رکھتے ہوئے جتنی دعائیں مانگ سکتی تھیں وہ جلدی جلدی مانگ لیں۔ کیونکہ شرطیاں جلدی جلدی نکال رہی تھیں اور پیچھے سے مزید خواتین آرہی تھیں۔
سو جگہ سے نکلے بلکہ جلدی نکلے بغیر گزارہ نہیں تھا۔مگر ہر طرف نظر مارتے ہوئے جتنا ایک ایک کونہ دیکھا جا سکتا تھا وہ دیکھا۔ بقول حضرت مولانا حسن رضا عاصیوں کو در تمہارا مل گیا بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا
|