اکیلا پن کیا ہے ؟
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
اکیلا پن کیا ہے ؟
✍🏻 : علی عباس کاظمی(روپوال،چکوال) 09 اکتوبر 2025ء
اکیلا پن کیا ہے؟ یہ سوال بظاہر بہت سادہ معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر انسانی وجود کی سب سے گہری اداسی چھپی ہے۔ اکیلا پن محض کسی کے نہ ہونے یا تنہا بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ یہ دل کے اندر پیدا ہونے والا وہ خلا ہے جو انسان کو ہجوم میں بھی اجنبی کر دیتا ہے۔ آج کا انسان پہلے سے زیادہ جڑا ہوا ہے اس کے پاس سوشل میڈیا، دوستوں کی فہرستیں اور رابطوں کے بے شمار ذرائع موجود ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ اندر سے پہلے سے کہیں زیادہ خالی محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ خاموش بیماری ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے احساسات، رشتوں اور سکون کو چاٹ رہی ہے۔ یہ تنہائی دراصل ہماری اپنی تخلیق ہے۔ ہم نے خود کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیا ہے، جب ہم کہتے ہیں “میری زندگی، میرے اصول، میری حدیں” اور اگر کوئی ان حدود سے ذرا سا آگے بڑھ جائے تو ہم فوراً اس سے فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے گرد ایسی خودساختہ دیواریں کھڑی کر لی ہیں جن کے اندر صرف ہم خود ہیں۔ نہ کوئی دوست، نہ کوئی رشتہ، نہ کوئی قربت۔ یہی دیوار رفتہ رفتہ ہماری روح کا قید خانہ بن گئی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ انسان صرف اپنی ذات کے لیے نہیں جیتا۔ کبھی ہمارا معاشرہ محبت، ایثار اور قربانی سے پہچانا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے، کسی کے گھر جانا یا کسی کی مدد کرنا معمول کی بات تھی۔ اب اگر کوئی دروازہ کھٹکھٹا دے تو ہم چونک جاتے ہیں۔ ہم نے خلوص کو تکلف اور محبت کو مداخلت سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ تعلق اب “سہولت” پر قائم ہیں، احساس پر نہیں۔ ہم دوسروں کو اپنے معیار کے مطابق پرکھتے ہیں اور اگر کوئی ان توقعات پر پورا نہ اترے تو اسےاپنی زندگی سےالگ کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں اکیلے ہو گئے ہیں۔ آج کا انسان بے سکونی، اضطراب اور تھکن میں مبتلا ہے۔ ٹیکنالوجی کی چکاچوند، سوشل میڈیا کا شور اور کامیابی کی دوڑ نے ہمیں اندر سے تھکا دیا ہے۔ ہم ہر وقت مصروف رہنے کو کامیابی سمجھ بیٹھے ہیںمگر یہ مصروفیت دراصل ایک خالی پن کا پردہ ہے۔ ہم خود سے بھاگ رہے ہیں تاکہ اپنے اندر کے شور کو نہ سن سکیں۔ ہم نے سکون کے لمحے قربان کر دیے ہیں اور اب جب خاموشی ملتی ہے تو وہ ہمیں خوفزدہ کرتی ہے۔ ذہنی تھکن نے ہمارے رویوں، صحت اور رشتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہم چڑچڑے ہو گئے ہیں، بات چیت میں تلخی آگئی ہے، تعلقات بوجھ لگنے لگے ہیں اور زندگی ایک بے رنگ سےدائرے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی وجود سے بیزار ہونے لگتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کوئی بات کرے مگر زبان خاموش رہتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کوئی قریب آئے مگر ہم خود دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہم شکوہ کرتے ہیں کہ کوئی یاد نہیں کرتا مگر خود پہل کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ تضاد ہی ہماری روح کی تھکن کی علامت ہے۔ لیکن یہ کیفیت ناقابلِ واپسی نہیں ہم اگر چاہیں تو اس دیوار کو توڑ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنی زندگی میں توازن پیدا کریں۔ کام اور آرام کے درمیان لکیر کھینچنا ضروری ہے۔ ہر وقت مصروف رہنا کامیابی نہیں بلکہ تھکن کا دوسرا نام ہے۔ کبھی موبائل بند کریں، چائے کا ایک کپ لیں اور چند لمحے خود کے ساتھ گزاریں۔ پرانے دوست کو فون کریں، کسی رشتہ دار کے گھر جائیں یا بس شام کے وقت کھلے آسمان تلے بیٹھ جائیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحے بڑے سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ نیند، ورزش اور متوازن خوراک وہ عناصر ہیں جو ذہنی سکون کا سبب بنتے ہیں۔ جب جسم پرسکون ہوتا ہے تو ذہن خود بخود ہلکا ہو جاتا ہے۔ ہم نے دوسروں تک پہنچنا چھوڑ دیا ہے اور یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔ لوگوں سے بات کریں، مسکراہٹ بانٹیں، کسی کی بات سنیں۔ خلوص مانگنے سے زیادہ دینے سے بڑھتا ہے۔ محبت ایک دریا ہے ۔ ۔ ۔ جتنا آپ بہائیں گے اتنا ہی یہ تازہ رہے گا۔ زندگی کی تیز رفتاری میں کچھ لمحے خاموشی کے لیے نکالیں۔ دعا، مراقبہ یا چند لمحے تنہائی میں بیٹھ کر شکر ادا کرنا دل کو تازگی دیتا ہے۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسان اپنے اندر جھانکتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ سکون کسی اور کے پاس نہیں خود اس کے اندر پوشیدہ ہے۔ تعلق، احساس اور قربت ہی وہ طاقتیں ہیں جو انسان کو زندہ رکھتی ہیں۔زندگی رشتوں کے بغیر ادھوری ہے۔ ہم جتنا دوسروں سے الگ ہوتے جائیں گےاتنا ہی اپنے آپ سے دور ہو جائیں گے۔ اکیلا پن ختم کرنے کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیںصرف ایک قدم بڑھانے کی ہمت چاہیے۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم انا کےخول سے نکل کر انسان بنیں۔تھوڑا نرم، تھوڑا قریب، تھوڑا سادہ۔ پھر دیکھئے، دنیا بھی کم تنہا لگے گی۔ ۔ ۔ اور شاید ہم خود بھی۔
|
|