کالم: دشمن کے بیانیے کا ایندھن
(Waseem Akram, Islamabad)
عادل راجہ اور آھسان اللہ احسان کے پاکستان مخالف پراپیگنڈے نے بھارتی میڈیا کو آگ اگلنے کے لئے ایندھن مہیا کیا۔ |
|
اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے جنوبی ایشیا میں ایک خاص مقام و اہمیت حاصل ہے ، اپنے قیام سے اب تک مختلف ادوار میں اندرونی و بیرونی یلغار کا سامنا کرتا آیا ہے۔ملک دشمن قوتوں اور دہشت گرد عناصر نے پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور امن و استحکام کے رستے سے ہٹانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سابق فوجی افسر اور سوشل میڈیا تجزیہ کار عادل راجہ نے شمالی بلوچستان میں داعش خراسان (ISKP) کی مبینہ موجودگی، شفیق مینگل کے کردار اور پوست (افیون) کی کاشت کے حوالے سے متنازع بیانات دیے۔ ان کے مطابق ISKP کے کیمپ افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہیں، اور یہ مبینہ طور پر تحریک طالبان افغانستان (TTA) کے خلاف پاکستان کا ایک "پروجیکٹ" ہے۔ حیرت انگیز طور پر، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی ان بیانات کی تائید کرتے ہوئے عادل راجہ کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ بھارت کے کئی بڑے میڈیا ہاؤسز، جیسے "انڈیا ٹوڈے"، "ٹائمز ناؤ"، "زی نیوز" اور "دی ہندو" نے فوراً اس ویڈیو کو اٹھا کر پاکستان مخالف بیانیے کے طور پر پیش کیا۔ ان میڈیا اداروں نے نہ صرف عادل راجہ کے متنازع الفاظ کو نمایاں کیا بلکہ انہیں "پاکستانی ریاست کی اعترافی ناکامی" کے طور پر دکھانے کی کوشش کی۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ یہ بیانیہ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک نیا ہتھیار بن گیا ہے، جسے وہ خطے میں اسلام آباد کے کردار کو کمزور کرنے اور دنیا میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ بھارتی میڈیا نے کسی داخلی پاکستانی بیان یا تنازعے کو اپنے حق میں استعمال کیا ہو۔ ماضی میں بھی جب بھی پاکستانی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، بھارت نے ہمیشہ اس کے بیانیے کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ چاہے وہ آپریشن ضربِ عضب ہو، ردالفساد ہو، یا بلوچستان میں سماجی ترقیاتی منصوبے — بھارتی میڈیا نے ہر کامیابی کو شک کی نظر سے دکھایا۔اب عادل راجہ کے اس بیان کو لے کر بھارتی ذرائع ابلاغ نے جو مہم چلائی، وہ اسی پرانی پالیسی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ "پاکستان خود دہشت گرد گروہوں کو منظم کر رہا ہے" تاکہ افغانستان پر اثرانداز ہو سکے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو بھارت پچھلے دو دہائیوں سے عالمی سطح پر پھیلا رہا ہے، مگر اس بار فرق یہ ہے کہ اس کے لیے مواد ایک پاکستانی شہری کے منہ سے آیا، جس نے غیر ذمہ دارانہ انداز میں ریاستی امور پر گفتگو کی۔ دوسری جانب احسان اللہ احسان، جو خود پاکستان میں درجنوں معصوم شہریوں، طلبہ اور فوجی جوانوں کے قتل میں ملوث رہ چکا ہے، اس کی جانب سے کسی بیان کی تائید خود اس بیان کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر وہ شخص جو کبھی دشمن کے ہاتھوں استعمال ہوا، کسی نظریے کی تائید کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ دراصل دشمن کے مفاد میں ہے۔یہ ایک فطری سوال ہے کہ ایک مفرور دہشت گرد اگر کسی پاکستانی شہری کی حمایت کرے تو وہ پاکستانی مؤقف کیسے "قومی مفاد" میں ہو سکتا ہے؟ احسان اللہ احسان کی تائید دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس بیان سے پاکستان کے دشمن خوش ہیں، کیونکہ یہ وہی بات دہرا رہا ہے جو بھارت اور کچھ مغربی لابیاں برسوں سے کرتی آ رہی ہیں — کہ پاکستان دہشت گردی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں داعش خراسان یا کسی منظم دہشت گرد نیٹ ورک کی موجودگی کے بارے میں کوئی مصدقہ بین الاقوامی ثبوت موجود نہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی ادارے اور آئی ایس پی آر، متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی بیشتر سرگرمیاں بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کے زیر اثر ہیں، جو مقامی گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کرتی ہے۔بی ایل اے کی مدد سے متعدد شہریوں کو ملک دشمن پراپیگنڈے کا حصہ بنایا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ دوحہ مذاکرات میں سہولت کاری ہو یا طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی رابطے، اسلام آباد نے ہمیشہ خطے میں استحکام کی کوشش کی۔ اس کے برعکس، بھارت نے افغانستان میں اپنی شکست کا غصہ پاکستان پر نکالنے کے لیے میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کو ہتھیار بنایا ہے۔ حقیقت پسندانہ زاویہ سے دیکھا جائے تو پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں اسی ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ ایک ایسا ملک جو خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہو، وہ کسی بھی صورت دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شمالی یا جنوبی بلوچستان میں اگر کہیں پوست کی کاشت یا اسمگلنگ کے کچھ واقعات ہوتے بھی ہیں تو وہ غیر ریاستی عناصر اور سرحد پار سے آنے والے نیٹ ورکس کی وجہ سے ہیں — نہ کہ ریاستی پالیسی کے تحت۔پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردی، منشیات اور سرحدی جرائم کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تاہم عادل راجہ جیسے افراد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے الفاظ صرف یوٹیوب ویوز یا ذاتی شہرت نہیں لاتے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے مفاد کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔رائے دینے کی آزادی اپنی جگہ، مگر قومی سلامتی کے حساس موضوعات پر گفتگو کرتے وقت ذمہ داری کا مظاہرہ ضروری ہے۔ آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دشمن کے بیانیے کو اپنی زبان سے دہرا دیں۔ عادل راجہ اور احسان اللہ احسان کے بیانات دراصل اس ذہنی انتشار کی عکاسی کرتے ہیں جو سوشل میڈیا کے دور میں قومی بیانیے کو کمزور کر رہا ہے۔ بھارت اور دیگر مخالف قوتیں ان بیانات کو استعمال کر کے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسے وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور میڈیا قومی مفاد میں متحد ہوں، دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب دلیل، شفافیت اور قومی یکجہتی سے دیں۔پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے جس نے ہمیشہ امن، استحکام اور خطے کی بہتری کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ دشمن چاہے بیانیے کی جنگ لڑے یا سرحدوں پر، پاکستان اپنے عزم اور اتحاد سے ہر محاذ پر کامیاب ہو گا۔ |
|