غزہ جنگ بندی: مشرق وسطیٰ میں امن کی نئی اُمید

غلام مرتضیٰ باجوہ

دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطے مشرق وسطیٰ میں آخرکار ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق اور معاہدے پر دستخط نے پوری دنیا کو ایک لمحے کے لیے سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم“ٹروتھ سوشل”پر اس معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور حماس نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل اپنی افواج کو ایک متفقہ لائن تک واپس لے جائے گا، جو پائیدار امن کے قیام کی سمت ایک اہم قدم ہوگا۔پاکستان سمیت مسلم ممالک، عرب لیگ، اقوام متحدہ، روس اور دنیا کے بیشتر ممالک نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ بین الاقوامی سطح پر اسے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں مسلسل دو سال تک جاری رہنے والی خونریز جنگ کے بعد انسانی جانوں کے تحفظ، تعمیر نو، اور سیاسی استحکام کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
معاہدے کے تحت غزہ میں جنگ کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ اسرائیلی فوج کو غزہ شہر، شمالی علاقوں، رفح اور خان یونس سے انخلا کرنا ہوگا۔ پانچ سرحدی گزرگاہوں سے یومیہ چھ سو امدادی ٹرکوں کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، جن کی نگرانی بین الاقوامی ادارے کریں گے۔اسی مرحلے میں قیدیوں کے تبادلے کا عمل بھی شروع ہوگا۔ بیس اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ تاہم، امن کی یہ نوید ابھی پوری طرح حقیقت میں نہیں ڈھل سکی۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے باوجود بمباری کے واقعات جاری رہے، جس کے نتیجے میں مزید گیارہ فلسطینی شہید ہوئے۔یہ جنگ، جو سات اکتوبر 2023ء کو شروع ہوئی، اب تک اٹھارہ ہزار بچوں سمیت تقریباً ستاسٹھ ہزار دو سو فلسطینیوں کی شہادت کا سبب بن چکی ہے، جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس وقت غزہ میں کوئی بھی ہسپتال مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ طبی سہولیات کی کمی، غذائی قلت اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی نے ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں ہر تین میں سے دو بچے کسی نہ کسی درجے کی غذائی کمی کا شکار ہیں۔ بجلی، پانی اور ایندھن کی عدم دستیابی نے عام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ایسے حالات میں عالمی برادری اور خاص طور پر امریکہ کی ثالثی سے طے پانے والا یہ معاہدہ یقیناً امید کی ایک کرن ہے۔
جنگ بندی کے بعد دوسرا مرحلہ انفراسٹرکچر کی بحالی اور مشترکہ ٹاسک فورس کے قیام پر مشتمل ہوگا، جو بحالی امن کے عمل کی نگرانی کرے گی۔یہ مرحلہ سب سے نازک ہے، کیونکہ غزہ کی تباہ شدہ معیشت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے بغیر کوئی بھی امن دیرپا نہیں ہو سکتا۔اس کے علاوہ حماس کے لیے سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد کہیں اسرائیل دوبارہ جارحیت پر نہ اُتر آئے۔ اسی لیے حماس کی طرف سے ضمانت مانگی گئی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد لڑائی دوبارہ شروع نہ کی جائے۔
اسرائیل میں اس وقت جو حکومت قائم ہے وہ انتہاپسند قوم پرستوں کے دباؤ میں ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی اتحادی حکومت سیاسی طور پر کمزور اور دائیں بازو کے دباؤ میں ہے۔یہی انتہاپسند عناصر کسی بھی امن معاہدے کو اسرائیل کی ”پسپائی“ سمجھتے ہیں اور امن عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ماضی میں بھی اسرائیل نے نومبر 2023ء اور دسمبر 2024ء میں طے پانے والے عارضی سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔ یہی خدشہ اب بھی موجود ہے کہ اگر عالمی طاقتوں نے واضح اور سخت موقف اختیار نہ کیا تو یہ معاہدہ بھی صرف ایک وقتی سکون کا سبب بنے گا۔
امن معاہدے کے ضامن ممالک، خصوصاً امریکہ، مصر، قطر اور ترکی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی ہر شق پر من و عن عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ان ملکوں کو نہ صرف انسانی امداد کی فراہمی بلکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حتمی ہدف کی سمت واضح پیش رفت بھی یقینی بنانی ہوگی۔پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے حالیہ بیانات میں اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل ایک ایسی خودمختار فلسطینی ریاست ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔اسلام آباد نے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارمز پر بھی اس موقف کو مضبوطی سے اجاگر کیا ہے کہ پائیدار امن کے لیے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بحالی ناگزیر ہے۔
شرم الشیخ میں ہونے والا معاہدہ یقیناً ایک اہم سنگ میل ہے، مگر یہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب تمام فریقین خلوصِ نیت سے اس پر عمل کریں۔دنیا کو اب صرف بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے عوام کو وہ سکون نصیب ہو سکے جس کے وہ دہائیوں سے منتظر ہیں۔آخرکار، پائیدار امن کا راستہ صرف اور صرف انصاف سے ہو کر گزرتا ہے اور یہ انصاف تبھی ممکن ہے جب فلسطینیوں کو ان کا حق ملے، ایک آزاد فلسطینی ریاست کی صورت میں۔

 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.