غزہ میں دو سالہ نسل کشی، مزاحمت، جنگ بندی اور امید

غزہ میں دو سالہ نسل کشی، مزاحمت، جنگ بندی اور امید

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

دو سالہ صہیونی نسل کشی اور اہلِ غزہ کا بے مثال صبر:
دو سال تک جاری رہنے والی صہیونی ظلم و بربریت اور نسل کشی کے دوران اہلِ غزہ نے جو صبر، استقامت اور وطن سے محبت کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخِ عالم میں ایک بے نظیر داستان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنے ہزاروں بچوں، خواتین اور بزرگوں کی قربانیاں پیش کیں، گھروں اور بنیادی سہولیات کی تباہی برداشت کی اور مسلسل بمباری، گولہ باری، بھوک، بیماری اور محاصرے کے باوجود اپنی زمین اور مقدسات کے تحفظ کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اہلِ غزہ نے نہ ہجرت کا ارادہ کیا، نہ مزاحمت سے دستبردار ہوئے؛ بلکہ ہر نئے زخم اور المیے کے بعد مزید مضبوط ہو کر اُبھرے۔ ان دو برسوں میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کی تھی۔ جو زندہ بچے، وہ بھی روزانہ جان کے خطرے، بھوک اور جبری بے دخلی کا سامنا کرتے رہے۔ اس پوری مدت میں، نتن یاہو اور اس کی کابینہ کے وزیراور قابض افواج نے ایسے وحشیانہ جرائم اور انسانیت سوز مظالم کیے ہیں کہ جن کے لیے کوئی بھی معروف سزا کافی نہیں ہو سکتی۔ تاریخ اہلِ غزہ کے اس صبر، عزم، شجاعت اور استقامت کو سنہرے حروف سے لکھے گی اور ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرے گی۔

اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام:
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق دو سال کی طویل جنگ اور مسلسل جارحیت کے باوجود اسرائیل اپنے کسی بڑے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگرچہ اُس نے غزہ کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا؛ مگر نہ مزاحمت کو ختم کر سکا اور نہ ہی عوام کے عزم کو توڑ سکا۔ صہیونی ریاست کے بنیادی اہداف میں حماس کا خاتمہ، قیادت کا صفایا، یرغمال شہریوں کی رہائی اور عوام کو منتشر کر کے ہجرت پر مجبور کرنا شامل تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مزاحمت زندہ ہے، اس کی قیادت فعال ہے اور اسرائیل اُنھی کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔ یہ صورتحال خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اپنے بنیادی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر دو سال کی خونریز مہم کے بعد بھی اسرائیل حماس کے قائدین کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مذاکرات پر مجبور ہے؛ تو یہ اُس کی عسکری ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔ ایک چھوٹا سا محصور خطہ، جس پر گزشتہ بیس برسوں سے سخت ناکہ بندی مسلط ہے، اس نے ایک ایٹمی طاقت کو اس کے تمام وسائل اور کچھ بڑی عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود ناکام بنا دیا۔ البتہ قابض اسرائیل نے اس دوران اپنی دہشت گردی کی داستان ضرور طویل کی۔ اُس نے عام شہریوں کا قتلِ عام کیا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا، غزہ کے عوام کو بھوک و پیاس میں مبتلا رکھا اور اُنھیں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔

ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ اور حماس کا دانشمندانہ ردّ عمل:
یہ 29 ستمبر 2025 کی بات ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم نتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق بیس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جو دراصل امریکہ اور اسرائیل دونوں کی مجبوری بن چکا تھا۔ امریکہ نے ابتدائی طور پر اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی تھی کہ وہ "حماس کے خاتمے" کے نام پر غزہ کی پٹی میں جو چاہے کرے؛ مگر دو سال گزر جانے کے باوجود صہیونی ریاست نہ صرف حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہی؛ بلکہ اپنے یرغمال شہریوں کی رہائی بھی نہیں کراسکی۔ اس دوران دنیا بھر میں صہیونی نسل کشی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل سامنے آیا۔ مختلف ممالک میں روزانہ احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دو سال کے عرصے میں تقریباً آٹھ سو شہروں میں 45 ہزار سے زائد احتجاجی پروگرام منعقد کیے گئے۔ عوام کے اس وسیع اور غیر معمولی ردعمل نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ یہ دباؤ صرف عوامی سطح تک محدود نہیں رہا؛ بلکہ امریکی قیادت کو بھی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی پڑی۔ ٹرمپ نے سی این ایس سے گفتگو میں اعتراف کیا: "میں نے نتن یاہو کو سمجھایا کہ اب پوری دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے، تم سب سے نہیں لڑ سکتے۔ آخرکار وہ میری بات سمجھ گیا۔" یوں ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ دراصل سیاسی مجبوری اور زمینی حقیقتوں کے اعتراف کا دوسرا نام تھا؛ جب کہ حماس نے اس کے مقابل دانشمندانہ اور پُرعزم رویہ اختیار کیا۔

بظاہر ٹرمپ کا بیس نکاتی جنگ بندی منصوبہ پچھلے منصوبوں سے مختلف دکھائی دیا؛ مگر سیاسی تجزیہ نگاروں اور فلسطینی حلقوں کا مؤقف یہ تھا کہ فلسطینیوں کو اس میں کچھ نیا یا حقیقی فائدہ نہیں مل رہا تھا۔ نتن یاہو اور اس منصوبے کے حامی خوش دکھائی دیے اور کئی عرب و مسلم ممالک نے بھی اس کی تائید کر دی۔ ٹرمپ نے حماس پر سخت دباؤ ڈالا اور منصوبہ مکمل قبول کرنے کے لیے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ اگر حماس اسے قبول نہ کرے؛ تو جہنم کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ مگر حماس نے فوری طور پر منصوبے کو قبول نہیں کیا؛ بلکہ باریک بینی سے غور و خوض شروع کیا اور ایک متوازن اور دانشمندانہ جواب دیا۔ اس نے ٹرمپ کی کوشش کو سراہا اور منصوبے کے پہلے نو نکات کو قابلِ عمل قرار دیتے ہوئے باقی نکات پر تفصیلی مذاکرات کا تقاضا کیا۔ خاص طور پر حماس نے اُن شقوں کی سختی سے تردید کی جو اسرائیلی فوج کے انخلا کو سست اور حماس کو جلد از جلد غیر مسلح کرنے کی منطق پر مبنی تھیں۔

حماس نے یہ بھی واضح کیا کہ غزہ کے انتظامی امور صرف فلسطینیوں کے اختیار میں ہوں گے اور انتظامی کمیٹی کے ارکان کا انتخاب بھی فلسطینی خود کریں گے۔ حماس کا یہ محتاط مگر پُرعزم ردِعمل نہایت سفارتی چالاکی کا مظہر تھا۔ اس نے مذاکرات کی میز پر قابض ریاست کو مجبور کر دیا اور یرغمال اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے سفارتی دباؤ پیدا کیا۔ شاید ابو عبیدہ کے ایک طنزیہ بیان کا مفہوم یہی تھا کہ تم غزہ کی ریت کا ہر ذرہ چھان لو؛مگر اپنے قیدی کی رہائی کے لیے تمھیں مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ چناں چہ حماس کے محتاط ردِعمل نے صورتحال کو مذاکراتی دائرے میں برقرار رکھا اور حماس نے اپنی پوزیشن کو عالمی سطح پر تقویت دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ وہ محض قبول کرنے والا فریق نہیں؛ بلکہ مذاکراتی تقاضوں اور قومی مفادات کا محافظ بھی ہے۔

معاہدے میں طے پانے والے امور:
حماس اور قابض اسرائیل کے درمیان مذاکرات مصر کے شہر شرم الشیخ میں طے پائے۔ یہ مذاکرات چار روز تک جاری رہے اور دلچسپ امر یہ تھا کہ اسرائیل کو اسی خلیل الحیہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا، جس کے قتل کی کوشش وہ چند ہفتے قبل قطر میں کر چکا تھا۔ امریکہ، مصر، قطر اور ترکی کی نگرانی میں ہونے والے یہ مذاکرات بالآخر 9/ اکتوبر کو ایک تاریخی جنگ بندی معاہدے پر منتج ہوئے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ معاہدہ دو برس سے جاری خونی جنگ کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ تاہم بعض حلقوں میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل حسبِ روایت معاہدے سے مکر سکتا ہے جیسا کہ وہ ماضی میں کئی بار کر چکا ہے۔ معاہدے میں طے پانے والے اہم نکات درج ذیل ہیں:
مکمل جنگ بندی کا فوری نفاذ۔ قیدیوں کا تبادلہ: حماس بیس زندہ اسرائیلی مغویوں کو رہا کرے گی، جب کہ قابض اسرائیل دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔یرغمال بنائے گئے اٹھائیس اسرائیلی شہریوں کی لاشیں مرحلہ وار واپس کی جائیں گی۔ روزانہ 400 ٹرک غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور تعمیراتی سامان لے کر داخل ہوں گے۔ غزہ کے بے گھر خاندانوں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اسرائیلی فوج چوبیس گھنٹوں کے اندر غزہ سے انخلا کرے گی۔ یہ معاہدہ بلاشبہ غزہ میں امن، بحالی اور استحکام کی سمت پہلا عملی قدم سمجھا جا رہا ہے۔

صہیونی کابینہ کی جانب سے معاہدے کی منظوری:
صہیونی ریاست کی کابینہ نے غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق طے پانے والے معاہدے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ اس موقع پر وزیرِاعظم نتن یاہو نے اس معاہدے کو ایک "فیصلہ کن مرحلہ" قرار دیا۔ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے خصوصی ایلچیوں جارڈ کُشنر اور اسٹیو وٹکوف کی کاوشوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل، امریکہ اور تمام انسانوں کے مفاد میں ہے؛ کیوں کہ اس کے نتیجے میں بچھڑے خاندان دوبارہ مل سکیں گے۔

فلسطینی قیدیوں کی حالتِ زار اور رہائی کی جدوجہد:
فی الحال اسرائیلی جیلوں میں گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی قیدی قید ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی بھی ہے۔ یہ قیدی تشدد، بھوک، تنگ دستی اور علاج معالجے کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ متعدد قیدی ظلم و ستم اور قیدِ تنہائی کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔ درحقیقت، طوفان الاقصیٰ کی جنگ کا ایک بنیادی مقصد ان بے گناہ اور معصوم فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی تھا، جو برسوں سے بغیر کسی منصفانہ مقدمے کے صہیونی جیلوں میں قید ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف مزاحمت کا استعارہ بنی؛ بلکہ قید و اذیت کے خلاف انسانی جدوجہد کی علامت کے طور پر بھی تاریخ میں رقم ہو گئی۔

دو سالہ خونریز جارحیت: شہادتیں اور انسانی نقصان:
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں، اس دو سالہ عرصے میں 67,194 فلسطینی شہید اور 169,890 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار غزہ کی وزارتِ صحت نے ریکارڈ کیے ہیں، تاہم جن کی شہادت ریکارڈ میں شامل نہیں ہو سکی، ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ جنگی ماہرین کے مطابق اس نسل کشی میں صہیونی ریاست نے لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قتل کیا ہے۔ مزید برآں، قحط اور بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے 460 فلسطینی، جن میں 154 بچے شامل ہیں، جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بہر حال، موجودہ جنگ بندی کے معاہدے کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دعا ہے کہ یہ معاہدہ دیرپا ثابت ہو، فلسطین کی آزادی کی بنیاد بنے اور فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور آزادی کی طرف ایک مضبوط قدم ثابت ہو۔

معاہدے پر خدشات :
اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافیوں سے بھری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے موجودہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حوالے سے بھی کچھ تجزیہ نگار شدید خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماضی میں اسرائیل نے متعدد مواقع پر بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں کی خلاف ورزی کی، جس کی بنا پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ بھی وہ طے شدہ شرائط پر مکمل عمل نہ کرے۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ معاہدے کے نفاذ میں قیدیوں کی رہائی، فوجی انخلا اور انسانی امداد کے انتظامات سب سے زیادہ نازک امور ہیں اور اگر اسرائیل کسی بھی نقطے پر عمل سے گریز کرےگا؛ تو یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے مسائل پیدا کرے گا؛ بلکہ عالمی سطح پر بھی سیاست اور اعتماد پر منفی اثر ڈالے گا؛ اسی لیے معاہدے کی کامیابی کا انحصار صرف فریقین کی نیت پر نہیں؛ بلکہ عالمی برادری، نگرانی اداروں اور انسانی حقوق کے مبصرین کی موجودگی اور دباؤ پر بھی ہے۔ خدشات کے باوجود، بہت سے تجزیہ نگار امید ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عالمی دباؤ اور نگرانی مضبوط رہے؛ تو معاہدہ ایک پائیدار اور تاریخی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف غزہ میں امن کی فضا قائم ہوگی؛ بلکہ فلسطینی عوام کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی جانب بھی ایک مضبوط راستہ میسر آئے گا۔••••

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 236 Articles with 296354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.