کسک

(Tooba Khan, Dera Ghazi Khan)

پچھتاوے

کسک

ایک بزرگ خاتون اپنے آرام دہ اور پرتعیش کمرے میں بستر پر لیٹی کھانس رہی تھی۔ اچانک اسے خون کی الٹی آگئی اور خون کے لوتھڑے باہر نکلنے لگے۔ کھانستے کھانستے اس کی سانس بھاری ہوگئی۔ باہر سے ملازمہ کی کسی کے ساتھ بات کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے اپنی ملازمہ کو آوازیں دیں، لیکن جب سانس زیادہ پھولنے لگا تو ہمت نہ کر سکی مزید بلانےکی۔ آخرکار ملازمہ پانی لے کر آئی۔

اصل میں ملازمہ اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھی۔ شروع میں تو اس نے آوازوں کو نظر انداز کیا، لیکن بار بار بلانے پر بُرا سا منہ بنا کر اٹھی اور پانی دینے آگئی۔

واپس جا کر بیٹھی تو اس کی سہیلی افسوس کرتے ہوئے بولی:
“بیچاری کی کیا حالت ہوگئی ہے۔ اللہ معاف کرے، کسی دشمن کو بھی کبھی ایسی بیماری میں مبتلا نہ کرے۔ اور دیکھو تو صحیح، ایسے وقت میں بھی اس کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں۔ بیٹا الگ باہر جا کر بیٹھ گیا ہے، پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ سب کچھ نوکروں کے بھروسے چھوڑ رکھا ہے۔”

ملازمہ بولی:
“کہاں کی بیچاری؟ اپنے ہی کیے کی سزا بھگت رہی ہے۔ مالکن کے بیٹے نے نوکر رکھ دیے ہیں، یہی بہت ہے۔ یہ بھی تو اس کا ظرف ہے۔”

سہیلی نے کہا:
“ہائے ہائے شمو، کیسی باتیں کر رہی ہو؟ آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟ تم تو ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہو، سچ بتاؤ نا۔”

شمو بولی:
“ارے اس کا حسد ہی اسے کھا گیا ہے۔ سب کو کاموں میں الجھا کر اب اکیلی پڑی ہے۔”

سہیلی نے حیرت سے پوچھا:
“کیا مطلب؟”

شمو نے کہا:
“مطلب یہ کہ اس نے کالے جادو کے ذریعے اپنے بھائی اور بھابھی کا گھر توڑ دیا۔ پھر بیٹے کے گھر میں بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وقت پر بیٹے اور اس کی بیوی کو سب سمجھ آگیا اور وہ الگ ہو گئے۔ یہ تو اللہ کا کرم تھا ان پر۔”

سہیلی گھبرا کر بولی:
“توبہ توبہ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ اور تمہیں کیسے پتا چلا؟”

شمو بولی:
“میں ہی تو اسے اپنے علاقے کے بنگالی بابا کے پاس تعویذ لینے لے جایا کرتی تھی۔ بڑی حسد کرنے والی عورت تھی۔ بھائی اور بھابھی خوش تھے، تو اس نے حسد میں آکر تعویذ کرائے تاکہ ان میں لڑائیاں ہوں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طلاق تک نوبت پہنچ گئی اور ان کی اولاد بھی دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ بیچاری بڑی اچھی عورت تھی، سب کا خیال رکھنے والی۔ لیکن مَلکن اپنی انا اور غرور میں فرعون بنی بیٹھی تھی۔ آج دیکھ لو، بستر سے لگی پڑی ہے۔ توبہ توبہ، ایسے انسان کے شر سے اللہ سب کو بچائے۔”

سہیلی نے کہا:
“مگر شمو، اس سب میں بیٹا کیوں منہ پھیر گیا؟”

شمو نے آہ بھری اور بولی:
“بچھو کب عادت بدلتا ہے؟ ساری زندگی یہی کام کرتی رہی۔ جب بیٹے کی شادی ہوئی تو اپنی مرضی سے کی، لیکن اسے یہ برداشت نہ ہوا کہ بہو بیٹے کے دل پر چھا جائے۔ جب دیکھا کہ بیٹا بہو کا خیال رکھتا ہے تو اسے سکون نہ آیا۔ خود کے شوہر نے کبھی اس کا خیال نہیں رکھا تھا۔ خاندان کی وجہ سے شادی تو کرلی، لیکن دل ہمیشہ کہیں اور رہا۔ اور تُجھے تو پتہ ہے کہ جب انسان کو روحانی و دلِ سکون نہیں ملے تو انسان نفس کا غلام بن جاتا ہے اور پھر نفس کیاکچھ کراتی ہےانسان سے ۔ اسی لیے ان پر بھی تعویذ کرائے۔ لیکن جب بہو رانی کو پتا چل گیا تو بیٹا بیوی کو لے کر چلا گیا۔ اب سال میں ایک آدھ بار آجاتا ہے، باقی سب نوکروں پر چھوڑ دیا۔ اور اب یہ سب اس کالے جادو کا نتیجہ ہے۔”

سہیلی نے افسوس سے کہا:
“توبہ توبہ! لیکن شمو، تم بھی تو ساتھ جاتی تھیں؟”
شمو بولی:
“ہاں، ساتھ جاتی تھی مگر کراتی میں نہیں تھی۔ اور جب بنگالی بابا اور مَلکن کے حالات دیکھے تو میں نے اللہ سے سچی توبہ کرلی۔ بنگالی بابا کا انجام تو انسے بھی زیادہ برا ہوا ہے۔”
سہیلی کمو بولی:
" ہاں یہ تو سچ کہا بابا جی کا انجام دیکھ کر تو اور خوف آتا ہے "
کمرے کا دروازہ ذرا کھلا تھا، لہٰذا یہ ساری باتیں بزرگ عورت نے سن لیں۔ اس پر ایک اور کھانسی کا دورہ پڑا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگنے لگی۔ پھر کھانسی کا دورہ شدت سے بڑھ گیا۔
شمو بولی:
"لو پھر پڑ گیا دورہ بھڑھیا کو"
سہیلی نے شمو سے کہا:
“تم تو ہمیشہ اس کی بڑی حمایتی رہی ہو، اب یہ سب کیوں کہہ رہی ہو؟”
شمو نے تھک کر جواب دیا:
“ہاں، مگر اب تنگ آ گئی ہوں اس گندگی سے۔ اللہ بھی ایسے لوگوں کو جلد اپنے پاس نہیں بلاتا، بلکہ دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔”


کالا جادو گمراہی اور جہالت کی سب سے نچلی سطح ہے۔ اس میں صرف اندھیرا ہے اور کچھ نہیں۔ بے شک ہمارے نبی کریم ﷺ پر بھی جادو ہوا تھا، لیکن اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ کسی پر کالا جادو کرنا، کرنے کا مشورہ دینا یا کرنے پر اکسانا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے ۔اور اس کے شر سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے:
سورۃ البقرۃ، آیت 102:
“اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیاطین سلیمان کی بادشاہی کے زمانے میں پڑھا کرتے تھے۔ سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیاطین کافر ہوگئے، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے... اور یہ دونوں فرشتے بابل میں ہاروت اور ماروت پر نازل کیے گئے تھے، اور وہ کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے مگر یہ کہ پہلے کہہ دیتے تھے: ہم تو آزمائش ہیں، پس کفر نہ کرو۔”

سورۃ الفلق، آیت 4-5:
“اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے۔
اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔”

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ حسد اور ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی کامیابی آخرکار بربادی کا سبب بنتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ انسان صبر، سچائی اور محبت کے راستے پر چلے۔

 

Tooba Khan
About the Author: Tooba Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.