مسجد نبوی میں مکمل آخری دن آج کا ہی تھا اور سورج سر پر تھا ،میں سبز گنبد کے سامنے صرف چند قدم دور سر اٹھائے کھڑی تھی اور رونے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے دیکھے جارہی تھی۔یہ منظر میری آنکھیں خود دیکھ رہی ہیں۔وہ سبز رنگ آنکھوں کو پلک جھپکنے سے بھی روک رہا تھا کہ جتنا دیکھنا ممکن ہے دیکھ لو۔ اس منظر کو لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے وہ مصرعہ یاد آیا کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری عشا اب مسجد نبوی میں پڑھنی تھی۔ ہوا میں ایک خوشگوار سی ٹھنڈک تھی جو موڈ کو اچھا کررہی تھی۔مگر دل خواہ مخواہ میں رونے کو چاہ رہا تھا۔ کیونکہ مہمان کے جانے کا وقت تھا۔مسجد کے صحن میں موجود تھے اور بھوک زورورں کی تھی اچانک سے ایک بچی آئی جو چھوٹے کپس میں بریانی سے مشابہہ چاول سب میں بانٹ رہی تھی۔ اللہ اللہ خوشگوار ہوا چل رہی تھی کھجور اور چاول بہت مزہ آیا۔ جماعت میں کھڑے ہوتے ہوئے آنکھیں نم تھیں کہ پتہ تھا کل یہاں نہیں ہوں گے۔
کاش وہ چہرہ میری آنکھ نے دیکھا ہوتا مجھ کو تقدیر نے اس دور میں بھیجا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری فجر اب مسجد نبوی میں پڑھنی تھی۔کیونکہ آج روانگی تھی۔ دل اداس اور آںکھیں نم ہم نے آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے مگر ان کی تصویر سینے میں موجود ہے
جس نے لاکر کلام الہیٰ دیا وہ محمدصلہ اللہ علیہ والہ وسلم مدینے میں موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|