تحریک انصاف کے جلسہ لاہورمیں
کتنے لوگ تھے، ان میں شامل کتنے لوگوں کے ووٹ بن چکے ہیں اور کتنے ایسے ہیں
جو دوسری جماعتوں کے کارکن تھے اور ”بوجوہ“ اس جلسے میں شریک ہوئے اور کیا
پرویز رشید کو استعفیٰ دینا چاہئے یا نہیں، اس بحث میں پڑنا اب وقت کے ضیاع
کے علاوہ کچھ نہیں لیکن کچھ عوامل یقیناً ایسے ہیں جن پر بات کرنے اور بحث
و مباحثے کی ضرورت ہے۔ عمران خان سے زیادہ تحریک انصاف کے وہ کارکن زیادہ
قابل تحسین ہیں جنہوں نے اتنے بڑے جلسے کا سابقہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود
کامیابی سے انعقاد کیا۔ معتبر ذرائع اور بے لاگ تجزیہ کرنے والے مبصرین بھی
30 اکتوبر کے جلسے کو تحریک انصاف کی ایک واضح کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں
اور بلاشبہ جلسہ تھا بھی قابل تعریف لیکن اس سے بھی زیادہ قابل تعریف اس
میں زندگی کے تمام شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی شرکت تھی جو بغیر
کسی لالچ، دھونس اور دھاندلی کے، اپنی آزادانہ مرضی سے وہاں موجود تھے، نہ
پٹواریوں سے ٹرانسپورٹ کے لئے ”بھتہ“ لیا گیا، نہ تاجروں سے چندہ ، نہ
ریاستی ذرائع استعمال ہوئے اور نہ ہی زبردستی بسوں اور ویگنوں کو پکڑا گیا،
تحریک انصاف نے ایک محدود سطح پر ٹرانسپورٹ کا انتظام ضرور کیا تھا لیکن وہ
شائد دس پندرہ ہزار لوگوں کے لئے تھا لاکھوں کے مجمع کے لئے نہیں۔ قابل
تعریف ہیں زندہ دلان لاہور جنہوں نے تبدیلی کی جانب سفر میں عمران خان کے
رفیق بننے کو ترجیح دی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ایک حقیقی تبدیلی کی
جانب گامزن ہوجائیں تو یہی آج کا انقلاب ہے جو بغیر کسی خونی معرکے کے برپا
ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کو مبارک لیکن کیا ان کا کام ختم ہوگیا ہے یا اب
شروع ہوا ہے؟ کیا پاکستان کی خاموش اکثریت جن کے دلوں میں اس ملک کی محبت
تو ہے لیکن لیڈرشپ کے فقدان کی وجہ سے نہ تو وہ ووٹ ڈالنے آتے ہیں اور نہ
ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتے ہیں، کیا تحریک انصاف ان خاموش لوگوں کو
قومی دھارے میں شامل کرپائے گی، کیا تحریک انصاف کے کارکن اسی دلجمعی سے
کام کرتے رہیں گے جس سے وہ اب تک کرتے رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو عمران
خان اور ان کی ٹیم کے اذہان میں بھی ہوں گے اور وہ ان سوالوں کے جواب بھی
ضرور تلاش کررہے ہوں گے لیکن ایک عام آدمی کے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ یہ
ہے کہ راندہ درگاہ لوگوں، ان لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرکے جن کے ہاتھ
ہی نہیں بلکہ پورا جسم کرپشن میں لتھڑا ہوا ہو، کیسا انقلاب آئے گا؟عمران
خان کی نیت بلاشبہ ٹھیک اور صحیح ہے، مجھ سمیت اکثر لوگ موجودہ سیاسی
قائدین میں سے اسے بہتر چوائس قرار دیتے ہیں، اس میں شائد عمران خان کی
محبت سے زیادہ موجودہ حالات اور سیاستدانوں کی کرپشن کا زیادہ عمل دخل ہے
اس کے علاوہ لوگوں کی اکثریت آزمائے ہوئے لوگوں کی نسبت نئے لوگوں کو موقع
دینے کے حق میں ہے۔ تحریک انصاف کے وہ کارکن جو پچھلے پندرہ برسوں سے دل
وجان سے عمران خان کے ساتھ ہیں اور دامے، درمے سخنے ان کا ساتھ دے رہے ہیں
وہ بھی تشویش کا شکار ہیں کہ اگر دوسری جماعتوں کے گندے لوگوں کو ان پر
ترجیح دی جائے گی تو شائد کام نہ چلے اور تحریک انصاف آگے جانے کی بجائے
پیچھے جانا شروع کردے۔ ایک اور بات جو اکثر گفت و شنید میں سامنے آتی ہے وہ
یہ ہے کہ اگر موجودہ کرپٹ حکومت سے جان چھڑانی ہے اور نئے الیکشن میں قابل
ذکر تعداد میں سیٹیں جیتنی ہیں تو شائد آنے والے الیکشن میں سولو فلائٹ سے
ایسا ممکن نہ ہوسکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسری ایسی جماعتوں سے دوریاں
ختم کی جائیں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے فاصلے اتنے نہ بڑھائے جائیں
کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے اور اگر اتنی تندی و تیزی دکھانے کے بعد
”مجبوراً“ کسی ایسی جماعت سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا پڑگیا تو عوام میں تو
کوئی اچھا تاثر نہیں جائے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ مخالفین کے ہاتھ بھی بہت سے
باتیں آجائیں گی۔
ابھی ابتدا ہے، اگر نیتیں ٹھیک ہوں تو اللہ کی ذات بھی اپنا کرم کرتی ہے،
عمران خان کو اب چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی، عوام کو خوابوں میں سونے کے محل
نہ دکھائے جائیں بلکہ پریکٹیکل باتیں کی جائیں تاکہ مستقبل میں ان پر عمل
درآمد بھی ہوسکے، عمران خان کو ان تمام قوتوں اور ان کے حامیوں سے لڑنا پڑے
گا جو موجودہ سسٹم میں ہی اپنی بقاءسمجھتے ہیں، اس میں چھوٹی چھوٹی
چودھراہٹیں بھی شامل ہیں، وہ لوگ جو خصوصاً دیہات میں زندگی گذارتے ہیں ان
کے سب سے بڑے مسائل پٹواری، تھانے اور کچہری کے ہوتے ہیں، اگر وہ لوگ ان
تین شکنجوں سے نکل آئیں تو وہ یقینا عمران خان کو نجات دہندہ سمجھیں گے
لیکن یہ کام شہروں کی نسبت دیہات میں از حد مشکل ہے، ناممکن نہیں لیکن
انتہائی کٹھن! ایساکیوں ہے؟ وہ اس لئے کہ دیہات یا چھوٹے قصبوں میں جو لوگ
تھوڑے سے ”تیز“ہوتے ہیں وہ ایم پی اے اور دیگر اعلیٰ عہدوں کے حامل لوگوں
سے اپنی دوستیاں بنا لیتے ہیں اور پھر ان کو کیش کرواتے ہیں کیونکہ جب کوئی
ایم پی اے منتخب ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے علاقے میں پٹواری اور ایس
ایچ او کی ٹرانسفر کرواتا ہے اور اپنے ”خاص“ بندوں کو وہاں پوسٹ کرواتا ہے۔
اس کی وجہ بڑی سیدھی سی ہے کہ اس کے بعد وہ اور اس کے حواری اپنے اور اپنے
دوست احباب کے کام نکلوانا شروع کردیتے ہیں اور ان کاموں کے ذریعہ سے وہ
اپنے آپ کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ یہی دو شعبے ایسے ہیں جن کے ذریعہ الیکشن
میں دھاندلی کرکے جیتا بھی جاتا ہے، یعنی ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیاہے جس
کو بڑے تسلسل کے ساتھ اپنے ذاتی فائدے اور منفعت کے لئے استعمال کیا جاتا
ہے، ایسے چودھریوں کو ناکام کرنا اور ان کے قبضے سے سارے نظام کو واگذار
کروانا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے، کیا عمران خان اور ان کی
جماعت ان چودھریوں کی ”شراکت داری“ ختم کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ یہ سوال
بہت اہم ہے اور تحریک انصاف کو بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات، قصبوں اور
چھوٹے شہروں کی جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ شہروں میں بھی
حلقوں کی ”بندربانٹ“ اس طرح کی گئی ہے کہ ہر حلقے میں دیہی علاقے کا بھی
ایک اچھا خاصا حصہ ہوتا ہے جہاں پٹواری بادشاہ ہوتا ہے اور ایس ایچ او،
آرمی چیف۔ عمران خان کو بلا شبہ پورے ملک سے امیدواروں کی ضرورت ہوگی لیکن
احتیاط ان پر لازم ہے کہ اگر وہ لوگ بھی موجودہ ”نمائندوں“ جیسے ہوئے تو
شائد یہ قوم دوبارہ کسی سیاستدان پر یقین نہیں کرے گی اور یہ صرف عمران خان
کی شکست نہیں بلکہ اس ملک کی ”امید“ کی شکست ہوگی اور جب امید ختم ہوجائے
تو پھر زندگی بھی نہیں رہا کرتی! |