لیاقت علی خان کا دورۂ امریکہ 1950 پاک۔امریکہ دوستی کی بنیاد
(Syed Shuja Haider, Quetta)
|
یاقت علی خان کا دورۂ امریکہ 1950 پاک۔امریکہ دوستی کی بنیاد
تحریر: سید شجاع حیدر۔
پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا 1951ء میں امریکہ کا تاریخی دورہ برصغیر اور عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دورہ نہ صرف ایک نوزائیدہ مملکت کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے والا تھا بلکہ اسی سفر سے پاکستان اور امریکہ کی طویل دوستی کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ 1947ء میں آزادی کے بعد پاکستان کو شدید معاشی، انتظامی اور دفاعی مسائل کا سامنا تھا۔ دوسری جانب دنیا دو بڑی طاقتوں — امریکہ اور سوویت یونین — کے درمیان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ ایسے میں لیاقت علی خان کے سامنے ایک بنیادی سوال تھا کہ پاکستان کو عالمی سیاست میں کس جانب جھکاؤ رکھنا چاہیے۔
سوویت یونین نے پہلے پاکستان کو ماسکو کے دورے کی دعوت دی، مگر جب امریکہ کی طرف سے بھی دعوت موصول ہوئی تو وزیرِاعظم نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مغربی دنیا کے قریب کر دیا۔ لیاقت علی خان نے مئی 1950ء میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ واشنگٹن، نیویارک، شکاگو اور دیگر شہروں میں ان کے اعزاز میں تقاریب ہوئیں۔ امریکی میڈیا نے اس دورے کو "ایک اسلامی ریاست کے پہلے رہنما کا اہم سفارتی قدم" قرار دیا۔
اپنے خطاب میں لیاقت علی خان نے پاکستان کے نظریے اور پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان ایک اسلامی، جمہوری اور امن پسند ملک ہے جو دنیا میں توازن اور انصاف چاہتا ہے۔" ان کا پیغام امریکی عوام کے لیے ایک نیا اور مثبت تاثر لے کر آیا۔ اس دورے کے دوران امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی اور دفاعی ضروریات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اگرچہ فوری مالی امداد نہیں ملی، مگر ایک سیاسی اور سفارتی رشتہ ضرور قائم ہو گیا۔ دونوں ممالک نے باہمی احترام اور مفاہمت کی بنیاد پر تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہی دورہ آگے چل کر 1954,55ء کی دہائی میں پاکستان کی امریکی دفاعی معاہدوں (سیٹو اور سینٹو) میں شمولیت کی راہ ہموار کرنے والا ثابت ہوا۔ اس طرح پاکستان امریکی بلاک کے قریب آ گیا اور مغربی دنیا نے اسے جنوبی ایشیا میں ایک اہم اتحادی کے طور پر تسلیم کیا۔ اگرچہ یہ دورہ پاکستان کے لیے عالمی شناخت کا ذریعہ بنا، لیکن ناقدین کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کو سوویت یونین سے دور اور مغربی بلاک کے زیادہ قریب کر دیا، جس کے اثرات بعد میں ملکی سیاست اور خارجہ تعلقات پر نمایاں ہوئے۔ تاہم، لیاقت علی خان کے حامیوں کے نزدیک یہ ایک عملی اور دانشمندانہ قدم تھا۔ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اسے کسی طاقتور ملک کی معاونت حاصل ہو۔ امریکہ سے تعاون کے نتیجے میں پاکستان کو تکنیکی اور دفاعی مدد ملی، زرعی شعبے میں ترقی ہوئی، اور عالمی فورمز پر اس کی آواز سنی جانے لگی۔ لیاقت علی خان کا مقصد محض امداد حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کو ایک باوقار، خودمختار اور اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکہ میں اپنے ہر خطاب میں کہا کہ "اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں۔" ان کا یہ مؤقف مغرب کے لیے ایک تازہ پیغام تھا کہ پاکستان کسی بلاک کا تابع نہیں بلکہ ایک باعزت شراکت دار بننا چاہتا ہے لیاقت علی خان کا 1950ء کا دورۂ امریکہ بلاشبہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا پہلا بڑا اور فیصلہ کن قدم تھا۔ اس نے پاکستان کو عالمی سیاست میں نمایاں کیا اور امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھی۔
آج جب پاک۔امریکہ تعلقات کئی اتار چڑھاؤ سے گزر چکے ہیں، تو یہ دورہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے بانی رہنماؤں نے خارجہ پالیسی کو صرف طاقت کے توازن نہیں بلکہ قومی وقار اور نظریاتی تشخص کے ساتھ جوڑا تھا۔ لیاقت علی خان کا وہ تاریخی سفر پاکستان کی سفارتی تاریخ میں ہمیشہ ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھا جائے گ |
|