عنوان: پاکستان اور سیٹو معاہدہ 1954 — مفاد، مصلحت اور علیحدگی کی داستان

وان: پاکستان اور سیٹو معاہدہ 1954 — مفاد، مصلحت اور علیحدگی کی داستان
تحریر: شجاع نقوی

1954 کا سال پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نہایت اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایک فوجی اتحاد سیٹو (SEATO) یعنی South East Asia Treaty Organization میں شمولیت اختیار کی۔ بظاہر اس معاہدے کا مقصد کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنا اور ایشیائی ممالک کے دفاع کو مضبوط بنانا تھا، مگر دراصل یہ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی طاقتوں کے عالمی مفادات کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کے لیے سیٹو میں شمولیت ایک دفاعی ضرورت تھی، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ ایک محدود اور وقتی مفاد کے تحت کیا گیا تھا۔
سیٹو میں شمولیت کی وجوہات
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ملک شدید دفاعی اور معاشی مشکلات سے دوچار تھا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے نے پاکستان کو ایک مستقل خطرے سے دوچار کر رکھا تھا۔ دوسری طرف سوویت یونین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور افغانستان میں اس کا اثر و رسوخ بھی پاکستان کے لیے فکری پریشانی کا باعث تھا۔ ایسے میں وزیراعظم محمد علی بوگرا کی حکومت نے امریکہ سے فوجی اور معاشی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک قریبی تعلقات کی پالیسی اپنائی۔
امریکہ اُس وقت دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے میں مصروف تھا تاکہ سوویت یونین کے اثر کو محدود کیا جا سکے۔ پاکستان نے اس موقع کو اپنی دفاعی ضرورت کے تناظر میں دیکھا۔ 1954 میں پاکستان نے سیٹو معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت اسے امریکی فوجی امداد، جدید اسلحہ اور تربیت حاصل ہونے لگی۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس معاہدے کے ذریعے اسے بھارت کے خلاف ایک مضبوط دفاعی سہارا مل جائے گا۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کے اندازے غلط ثابت ہونے لگے۔ سیٹو کا ڈھانچہ بنیادی طور پر مشرقی ایشیا کے ممالک کے لیے بنایا گیا تھا — یعنی اس کا اصل ہدف ویتنام، لاوس، تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے ممالک میں کمیونزم کے خلاف لڑائی تھی۔ بھارت چونکہ غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن تھا، اس لیے امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد فراہم کرنے کے بجائے اسلحے کی پابندی عائد کر دی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو احساس ہوا کہ سیٹو اور اس جیسے دیگر مغربی اتحاد (جیسے سینٹو) صرف مغربی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تھے، نہ کہ پاکستان کے حقیقی دفاع کے لیے۔
پاکستان کا سیٹو سے علیحدگی کا فیصلہ
1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ملک کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر گہرا اثر ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان نے خودمختار اور غیر وابستہ خارجہ پالیسی کی طرف قدم بڑھایا۔
1972 میں پاکستان نے سیٹو سے اپنی رکنیت معطل کر دی اور بالآخر 1979 میں مکمل طور پر اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی۔ دراصل بھٹو حکومت کا یہ فیصلہ پاکستان کے اُس نئے وژن کی نمائندگی کرتا تھا جس میں غیر جانبداری، خودمختاری اور تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ برابری پر مبنی تعلقات کو ترجیح دی گئی۔
سیٹو میں شمولیت کے وقت پاکستان کو یقین تھا کہ یہ اتحاد اس کے دفاعی مسائل کا حل بنے گا، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو صرف ایک “سرد جنگی مورچہ” سمجھا، جسے ضرورت کے وقت استعمال کیا جا سکتا تھا۔ جب پاکستان کو حقیقی مدد کی ضرورت پیش آئی، تو سیٹو خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔
آج جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کے لیے سیٹو ایک عارضی سہارا ضرور تھا، لیکن دیرپا مفاد کا ذریعہ نہیں۔ یہ معاہدہ دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اُس ابتدائی کمزوری کا مظہر تھا جس میں قومی خودمختاری سے زیادہ وقتی مفادات کو ترجیح دی گئی۔

وقت نے ثابت کیا کہ کسی بھی قوم کی اصل طاقت بیرونی اتحادوں میں نہیں بلکہ اپنی خود انحصاری اور قومی وحدت میں پوشیدہ ہے — اور یہی سبق پاکستان نے سیٹو کے تجربے سے سیکھا

 

Syed Shuja Haider
About the Author: Syed Shuja Haider Read More Articles by Syed Shuja Haider: 2 Articles with 36 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.