”ذرا دیکھیے تو سہی ’کترینہ‘ کے
کُھر کتنے نفیس ہیں!“
”کوئی مُجھے بتا رہا تھا کہ ’کرینہ‘ کو کَھلی بنولہ اور سُوکھی گھاس مرغوب
ہے! ذرا اِس کی دُم کے بال تو دیکھیے، کتنے گھنے اور چمکیلے ہیں۔ پوچھیے تو
سہی یہ لوگ اِس کی دُم پر کون سا تیل لگاتے ہیں؟“
”اگر ’گجنی‘ آپ کے سامنے آ جائے تو اُس کے سینگ دیکھ کر آپ عَش عَش کر
اُٹھیں گے۔“
”مِنی اسکرین پر تو ہمیں ’شعلے‘ کی بسنتی تانگہ ہانکتی دِکھائی دی تھی۔ مگر
کراچی میں ’بسنتی‘ سبز چارہ تناول فرمانے کے بعد ڈکاریں لیتی دکھائی دیتی
ہے!“
یہ فلم اسٹوڈیوز کے شوٹنگ فلور پر ادا کئے جانے والے جملے نہیں، مویشی منڈی
میں پیش کئے جانے والے تاثرات ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ پاکستان
میں عید الاضحٰی کی آمد پر بولی وُڈ اسٹارز کا کیا حشر ہوا ہے۔ جانوروں کو
منفرد انداز سے پُکارنے کے لیے یار لوگ مُمبئی تک پہنچ گئے۔ جانوروں کو
بولی وُڈ اسٹارز سے موسوم کرنے کا فیشن سیلابی ریلے کی طرح آیا ہے اور بہت
کچھ بہا لے گیا ہے۔ اب تو کسی میمنے کو بھی دُھتکارتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ
کہیں اُس میں سے شاہ رُخ خان برآمد نہ ہو جائے! کسی خُرّانٹ قسم کے بیل کو
دیکھیے تو اُس میں آں جہانی امریش پوری کی جھلک ملتی ہے!
اب کے یاروں نے قربانی کے جانوروں کے ساتھ ساتھ اُن کے ناموں کی بھی منڈی
سجادی ہے۔ شہنشاہ، بادشاہ، حُسن کا بادشاہ، ببلو، بادل، طوفان، بلیک کوئین،
راجہ، ساجا ماجا، چھوٹی دنیا، چھوٹے میاں بڑے میاں اور پتہ نہیں نہیں کِن
کِن ناموں سے قربانی کے جانوروں کو پُکارا جاتا رہا ہے اور پُکارا جا رہا
ہے۔ اچھا ہے کہ جانوروں کو اپنے نئے نام معلوم نہیں ورنہ یہ ہوگا کہ ذبح
ہونے تک اُن کی ہنسی نہیں رُکے گی! نُمایاں فرق یہ پڑا ہے کہ ہنسی کے اِن
اسباب میں اب کی بار بولی وُڈ بھی جُڑ گیا ہے۔
کراچی میں مویشیوں کی منڈی کیا سَجی ہے، پورا بولی وُڈ ہی اُٹھ کر آگیا ہے۔
کہیں کوئی ”چُلبُل پانڈے“ خوب چرنے کے بعد شامیانے میں چکر کاٹتا، خَر
مَستی سے سرشار، بندروں کی سی اُچھل کود سے لوگوں کا دل بہلاتا دِکھائی
دیتا ہے! یعنی مویشی منڈی میں ”چُلبُل پانڈے“ کے درشن کرنے کے بعد ”دَبنگ“
دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی! کہیں بغیر سینگ کا ”باڈی گارڈ“ بے زبانی
کی زبان سے کہہ رہا ہے ”جسے قریب آنا ہے، ذرا سوچ سمجھ کر آئے۔ سینگ نہیں
ہیں تو نہ سہی، سَر تو ہے۔ وہی دے ماروں گا!“
سُنا ہے جس بیل کا نام باڈی گارڈ رکھا گیا ہے وہ بار بار اپنے نئے نام کے
بارے میں سوچ کر ہنس پڑتا ہے۔ ہنسنے کا سبب یہ ہے کہ جسے باڈی گارڈ کہا جا
رہا ہے اُس کے تو اپنے چار پانچ باڈی گارڈ ہیں!
”مُنّی بدنام ہوئی۔۔“ والی مُنّی سے موسوم گائے کو دیکھیے تو بس دیکھتے رہ
جائیے۔ یہ ”وی آئی پی مُنّی“ اِس قدر نازک ہے کہ قریب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
کہ کہیں بدنام نہ ہو جائے! لوگ ”مُنّی“ سے میل جول بڑھاتے یعنی اُس کے قریب
جاتے ڈرتے ہیں کہ کہیں ”مُنّی صاحبہ“ خود ہی نہ بول پڑیں کہ مُنّے میاں!
ذرا آئینے میں اپنا (سا) مُنہ تو دیکھو۔ ہم سے دوستی کروگے؟ یہ مُنہ اور
مَسُور کی دال!
گانے کی حد تو شیلا کی جوانی غنیمت ہے کہ دیکھ بھی لی، دل بھی بہلا لیا اور
آگے بڑھ گئے۔ مویشی منڈی میں ”شیلا“ کی جوانی نِہارنے والے جب اُس کے اسٹاف
پر نظر ڈالتے ہیں تو (اپنے) دِل تھام کر رہ جاتے ہیں! اور ہوش آنے پر سمجھ
میں آتا ہے کہ دُم والی شیلا کی جوانی برقرار رکھنے پر کس قدر خرچ کرنا
پڑتا ہے!
بولی وُڈ کی بعض اداکارائیں ایسی ہیں کہ کِسی گائے کو اُن کے نام سے پُکارا
جائے تو وہ ناراض ہو جائے گی اور ہتکِ عزت کا دعوٰی کربیٹھے گی!
ویسے قُربانی کے جانور کو چُلبُل پانڈے قرار دینا بھی درست نہیں۔ جانور اِس
قدر بے ڈھنگے اور چُلبُلے کہاں ہوتے ہیں! آپ نے کسی بیل کو ”دبنگ“ والے
چُلبُل پانڈے کی طرح چھچھور پن کرتے دیکھا ہے؟ جانوروں میں بھی کچھ آداب
ہوا کرتے ہیں! کبھی کسی بیل کو آپ نے ”گجنی“ والے عامر خان کی طرح غیر
منطقی حرکتیں کرتے دیکھا ہے؟ گائے اور بیل چاہے جتنی بھی طاقت رکھتے ہوں،
اُن کی مار دھاڑ کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بولی
وُڈ کے ہیروز (سنی دیول، سنجے دت، رتھک روشن وغیرہ) کی طرح پوری فوج کا
تِیا پانچا کردیں اور اِس دوران کوئی بریک بھی نہ لیں! قُربانی کے جانوروں
سے ایسی باتیں منسوب نہ کی جائیں کہ کل کو اُن کے لیے بات نبھانا دُشوار ہو
جائے!
بہت ڈھونڈنے پر بھی ہمیں مویشی منڈی میں ڈھنگ کے جانوروں میں کوئی بھی ایسا
دِکھائی نہ دیا جسے لولی وُڈ کے کسی ہیرو یا ولن سے موسوم کیا گیا ہو۔ اِس
میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی۔ سلطان راہی مرحوم سے کسی بھی بیل کو
موسوم کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی بیل کو سُلطان
راہی کہا جائے اور پھر وہ ہاتھ نہ آئے! اب کہاں کسی ”انجمن“ کو ساتھ لےکر
ہم گم شدہ ”سلطان راہی“ کو ڈھونڈتے پھریں گے! ممکن ہے کہ کسی بیل کو شَفقت
چیمہ کہا جائے اور وہ کہنے والے کا قیمہ بنا ڈالے! ایک زمانہ تھا جب الیاس
کشمیری اور اقبال حسن جیسے بھاری بھرکم ولن ہوا کرتے تھے۔ اِنہیں دیکھ کر
پہلوان بھی شرما جایا کرتے تھے۔ مگر اب حال یہ ہے کہ جانوروں کو دیکھ کر
ہمارے آج کے سنگل یا ڈیڑھ پسلی ولن کچھ نہ کچھ تحریک پاسکتے ہیں!
آج کل لولی وُڈ میں خاصے نازک اندام ہیرو آ رہے ہیں۔ اِن کی نزاکت دیکھتے
ہوئے صرف بکروں ہی کو اِن کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بعض
بکرے لولی وُڈ کے ہیروز سے زیادہ ڈیشنگ پرسنالٹی کے حامل پائے گئے ہیں!
ہوسکتا ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری کو مویشی منڈی سے چند کام کے نئے چہرے مل
جائیں اور شوبز کی تقدیر جاگ اُٹھے۔
مویشی منڈی کے وی آئی پی بلاک میں ہمیں چند خُرّانٹ اور غُصیلے جانور
دِکھائی دیئے۔ اِن میں سے بعض کو کنٹرول کرنے کے لیے بحری جہازوں پر پائے
جانے والے رَسّوں سے باندھا گیا تھا! نگرانی پر مامُور افراد سے پوچھا کہ
یہ اِس قدر مُشتعل کیوں ہیں تو جواب یہ ملا کہ اِن جانوروں کو کرنٹ افیئرز
کے پروگرام کرنے والے چند ٹی وی اینکرز کے نام سے پُکارا گئے تو بھڑک اُٹھے
اور اب تک قابو میں نہیں آ رہے! اور یہ بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ
اِنہیں اب کِس نام سے پُکارا جائے کہ رام ہوں! |