مویشی نامہ - ۳

اگر کِسی کو اپنی صلاحیت پر ناز ہے اور یہ گمان ہو چلا ہے کہ دنیا کو اُس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں تو لازم ہے کہ وہ آئینے میں اپنا مُنہ دیکھے اور اپنا سا ہی مُنہ لیکر رہ جائے۔ یہ تو اگلے وقتوں کی بات ہے کہ اِنسان ذرا سی صلاحیت پر ناز بھی کرتا تھا اور اِس بات کی خواہش بھی کرتا تھا کہ دُنیا اُس کی صلاحیتوں کی قدر کرے اور ایسا صِلہ دے جو اُس کے شایان شان ہو۔ عیدالاضحیٰ قریب آتی جارہی ہے۔ ایسے میں اپنی قدر و قیمت کے بارے میں سوچنے کا حق صرف اور صرف قربانی کے جانوروں کو حاصل ہے!

قربانی کے جانور اب ایسی بُلند قیمتوں پر فروخت ہو رہے ہیں کہ بعض لوگ محض دِل پشوری کے لیے مویشی منڈی کا چکر لگانے کے بعد جب گھر پہنچتے ہیں تو اہل خانہ پر رُعب جھاڑنے کے لیے خاصی اکڑ کے ساتھ بتاتے ہیں ”آج تو ہم نے قربانی کے جانوروں کی قیمت پوچھی تھی!“ یہ بات وہ کبھی نہیں بتاتے کہ قیمت پوچھنے پر اُنہیں اپنی ”کم قیمتی“ پر جانوروں کے سامنے کیسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا!

پاکستان میں آسمان سے باتیں کرنا کوئی مُشکل کام نہیں، بالخصوصی قیمتوں کے لیے! قربانی کے جانوروں کی قیمتیں جس قدر اور جس تیزی سے آسمان سے باتیں کرتی جا رہی ہیں اُسے دیکھ کر لگتا ہے وہ دِن دور نہیں جب مویشی منڈی میں قیمت پوچھنا بھی اسٹیٹس سِمبل میں شمار ہونے لگے گا!

ایک صاحب کسی بڑی سی دُکان میں داخل ہوئے۔ چند اشیاءکے دام پوچھے اور کچھ خریدے بغیر نکلنے لگے تو ایک ملازم نے آواز دیکر بلایا اور بل تھمادیا۔ وہ صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ کچھ خریدا تو ہے نہیں پھر بل کس بات کا! ملازم نے مودبانہ عرض کیا کہ جناب! اِس دکان میں دام پوچھنے کا بھی بل لیا جاتا ہے! کچھ کچھ ایسا ہی حال اب مویشی منڈی کا بھی ہو چلا ہے۔ وہ زمانہ بس آیا چاہتا ہے کہ جب مویشی منڈی میں عمومی طور پر اور اِس کے وی آئی پی بلاک میں خصوصی طور پر جانوروں کے دام پوچھنے کے بھی چارجز لئے جانے لگیں گے! ہوسکتا ہے کہ یہ بورڈ بھی آویزاں کردیئے جائیں کہ نازک دِل والے حضرات سوچ سمجھ کر قیمت پوچھیں تاکہ بعد میں دِل کو جھٹکا اور جیب کو بُرا نہ لگے! آج کل اِنسانوں کی بے توقیری کا موسم چل رہا ہے۔ ایسے میں قربانی کے جانوروں کی قیمت سُن کر جو کچھ دِل پر گزرتی ہے اس کا حال غالب نے یوں بیان کیا ہے
اِ ک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے!

پیارے پاکستان میں اگر پنشن کے لیے دھکے کھاتے کھاتے مر جائیے یعنی موت کی چُھری اپنی زندگی کے گلے پر پھروا لیجیے تو دو چار لاکھ کی امداد کا اعلان ہو جاتا ہے اور وہ بھی متعلقہ دفاتر کے دس بیس چکر کاٹنے کے بعد ملتی ہے۔ ایسے میں قربانی کے جانور اپنی قیمت کے بُلند قامت پر رشک کیوں نہ کریں کہ گلے پر چُھری پھرنے سے پہلے ہی دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کے ہیں!

لولی وُڈ کی رانی دو من کی ہوئی تو کھیتوں اور باغوں میں ”جمپنگ ڈانس“ دُشوار ہوا اور وہ فِلموں کے لیے ناکارہ قرار پائی مگر مویشی منڈی میں 22 من کی ”رانی“ ناز و ادا کے مظاہرے کرتی جلوے بکھیر رہی ہے اور اِس کی مارکیٹ ویلیو 14 لاکھ سے کم نہیں!

اِنسانوں میں کالا رنگ پسند کرنے والے کم ہیں مگر اپنے ہم نَسلوں کا کالا رنگ پسند نہ کرنے والے اِنسان جب مویشی منڈی میں 15 من کی ”بلیک کوئین“ یا ”بلیک بیوٹی“ کو دیکھتے ہیں تو 12 لاکھ دینے کے لیے بھی اُتاؤلے ہوئے جاتے ہیں!

بولی وُڈ کی کترینہ کو ہر وقت اپنے فِگر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اور مویشی منڈی کی ”کترینہ“ کا حال یہ ہے کہ جوں جوں وزن بڑھتا اور فِگر پھیلتا جاتا ہے، قیمت کا فِگر بھی بڑھتا جاتا ہے! چار ٹانگوں والی کترینہ کی قیمت سُن کر پرستاروں کو ”کیف“ سا محسوس ہونے لگتا ہے!

جس کی سمجھ میں کوئی بات بالکل یا آسانی سے نہ آئے اُسے ہم بھولا کہتے ہیں۔ اِنسانوں میں تو بھولا کسی کو بھی کہا جاسکتا ہے مگر مویشی منڈی میں ”بھولا“ کہلانے کے لیے لازم ہے کہ وزن 15 من ہو! اور اِس 15 من کے ”بھولپن“ پر نثار ہونے کو جی چاہتا ہے کہ لوگ 12 لاکھ روپے وارنے پر بھی راضی دِکھائی دیتے ہیں!

موٹاپے کے ہاتھوں پریشان جن لوگوں کو عرفِ عام میں ببلو کہہ کر چھیڑا جاتا ہے وہ جب مویشی منڈی کا چکر لگاتے ہیں تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی جواز کے بغیر
.... تاریک راہوں میں مارے گئے!

کیونکہ اُن کی عُرفیت تو 12 لاکھ میں فروخت ہو رہی ہے!

آج اگر مہیوال زندہ ہوتا تو مویشی منڈی میں 16 من کی ”سوہنی“ کے درشن کرکے پہلے گنگا کنارے والے چھورے کی طرح نِہال اور پھر بے ہوش ہو جاتا! اور جب ہوش میں آنے پر معلوم ہوتا کہ اِس نازک سی، شرمیلی سی ”سوہنی“ کے 12 لاکھ لگ چکے ہیں تو اپنی ”بے قیمتی“ کا سوچ کر شرمندگی کے گھڑے پر سوار ہوکر پھر بے ہوشی کے دریا میں کود پڑتا!

زہے نصیب! ہم جمہوری دور میں جی رہے ہیں۔ اب بادشاہ خال خال رہ گئے ہیں۔ آج کے بادشاہ حکمرانی سے زیادہ نمائش کی چیز ہیں! کبھی کبھی کتابوں میں اُن کے قِصّے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مویشی منڈی میں جہاں اِتنے عجوبے ہیں وہاں ایک ”بادشاہ“ بھی سہی۔ ”بادشاہ“ کے ایک خدمت گار نے بتایا کہ وہ نرم مزاج کا ہے اور کبھی مُشتعل نہیں ہوتا۔ جمہوری دور میں جب جَدّی پُشتی بادشاہوں کی دال نہیں گل رہی تو پھر مویشی منڈی کا بادشاہ جوش میں آئے تو کس کے لیے اور مُشتعل ہو تو کیوں؟ اب 20 من کا بھاری بھرکم ”بادشاہ“ کِس برتے پر اُچھلے گا اور بالخصوص اِس صورت میں کہ وزن میں 16 لاکھ کی قیمت بھی جُڑ گئی ہو!

مویشی منڈی میں 20 من کا ”کالی چرن“ بھی ہے جس کے 13 لاکھ طلب کئے جا رہے ہیں۔ موصوف کا مزاج نئے نویلے دولھوں جیسا ہے۔ کھانا دینے میں ذرا سی دیر ہو جائے تو ٹُھنک جاتے ہیں اور کھانے کو ایک نظر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے! جس گردن پر چُھرا پھیرنا ہے اُسی گردن کو سہلاکر اُنہیں منانا پڑتا ہے!

ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش اب مویشیوں اور بالخصوص قربانی کے جانوروں میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ منڈی میں کمزور اور مریل جانور سیلاب زدگان کی طرح کُھلے میدان میں پڑے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسری طرف وی آئی پی بلاک کے شامیانوں میں براجمان جانوروں کی بہترین خوراک یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ کئی افراد کو اِن کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ یہ طبقاتی ناہمواری کہیں ہماری طرح قربانی کے جانوروں کو بھی شدید ذہنی دباؤ سے دوچار نہ کردے! ہم نے کبھی نفسیاتی اُلجھنوں سے بچنے کا بھرپور اہتمام نہیں کیا مگر قربانی کے جانوروں کو طبقاتی ناہمواری اور ذہنی اُلجھنوں سے محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ نَقص والے اِنسان تو مارکیٹ میں کسی نہ کسی چل جاتے ہیں بلکہ زیادہ ترقی پاتے ہیں!، مگر قربانی کے بازار میں نَقص والے جانور کا سِکّہ نہیں چل پاتا ثابت ہوا کہ قربانی کے جانوروں پر اِنسانی جنگل کا قانون نافذ نہیں ہوتا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524815 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More