وزارتیں کہاں ہیں؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کی ہنسی


گذشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وزیراعلی خیبرپختونخواہ اڈیالہ جیل کے باہر بیٹھ کراحتجاج کررہے ہیں ان سے ایک صحافی سوال کرتا ہے کہ آپ کی وزارتیں نہیں تو کام کیسے چلے گا تو وزیراعلی خیبرپختونخواہ بجائے جواب دینے کے مسکراتے رہے.لوگ پوچھ رہے ہیں وزارتیں کب ملیں گی؟ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل افریدی نے مسکرا تے رہے کہ جیسے یہ دنیا کی سب سے معمولی بات ہو۔ مسکراہٹ ایسی کہ اگر چائے کے کپ پر لگ جاتی تو کپ بھی آرام سے گرم نظر آتا۔

یہاں معاملہ عام نہیں۔ جب ایک صوبے کی کابینہ غائب ہو اور وزیراعلیٰ ہر دوسرے دن اسلام آباد اڈیالہ کی جانب روانہ ہو، تو عوام کے ذہن میں الفاظ خود جم کر کہنے لگتے ہیں: کابینہ کہاں ہے، وزارتیں کہاں ہیں، اور یہ لوگ ہمیں کس کے لیے منتخب کرواتے ہیں؟ یہ وہی قوم ہے جس نے ووٹ کیا، امید کی، اور پھر پایا کہ اسمبلی کم، رازداروں کی محفل زیادہ ہے۔وزیراعلیٰ کا اڈیالہ جانا اب ایک عمومی سی بات بن گئی ہے۔ پہلے لوگ لیڈروں کو جلسوں اور پبلک پروگراموں میں دیکھنے کے عادی تھے، اب کچھ لوگ انہیں اڈیالہ میں کھڑے دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بھی عوام کی طرح جینے لگے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عوام وہاں کھانا بانٹنے کی امید رکھتے ہیں اور لیڈر وہاں اپنی صفائی کے جواز تلاش کرتے ہیں۔ یہاں مذاق نہیں، حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگ طاقت کے چمکتے ہوئے حصوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اسی روشنی میں اپنی کار تول کر لیتے ہیں۔

بعض اوقات ہمارے لیڈر اتنے مصروف دکھائی دیتے ہیں کہ وہ سوئچ آن کیے بغیر ہی لگڑری گاڑی پر بیٹھ کر کسی ریستوران کا رخ کر لیتے ہیں۔ سوال سادہ ہے: اگر وزارتیں اتنی ضروری نہیں تو پھر ان کی گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور کیوں؟ عوام کہتے ہیں، اگر وزارتیں نہیں دیں گی تو کم از کم گاڑیاں واپس لوٹ لو تا کہ بیوہ دادی کے گھر جانے والا جنازہ بھی بروقت نکل سکے۔ چائے کی دکان والے بھی کہتے ہیں کہ سرکاری گاڑیوں کی واپسی سے ہمیں بھی فائدہ ہوگا، کم از کم ان گاڑیوں کے سامنے خطبے کم ہوں گے اور چائے کی پیالی میں سکون زیادہ ہوگا۔

یہاں ایک دلچسپ مشاہدہ ملتا ہے۔ لوگ وزارتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جیسے سونے کے انڈے دینے والی ہنس پیچھے کھڑی ہو۔ مگر اگر وہی توانائی وہیں لگائیں جہاں واقعی فرق پڑے، مثلاً روٹی، بجلی، اور سڑکیں—تو شاید نتیجہ مختلف ہو۔ ایک شہری نے بڑی سیدھی بات کہی: "اگر اتنا شور اٹک پر ہوتا تو شاید آٹے کی قلت ختم ہو جاتی۔" سچ یہی ہے؛ ہماری سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں، عوامی مسئلے پیچھے رہ جاتے ہیں اور عہدوں کی ہوڑ آگے آ جاتی ہے۔

کبھی کبھی ہمارے لیڈروں کی گفتگو ایسی لگتی ہے جیسے وہ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں ہیں۔ وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ پہلے بھی بہت لیڈر آئے اور چلے گئے، اور آئندہ بھی چلے جائیں گے۔ مگر عوام کو تو روزمرہ کے مسائل سے چپ نہیں رہنا چاہئیے۔ بجلی کے بل، گیس کے فراڈ، اور شہری سہولیات کے فقدان پر خاموشی طویل نہیں رکھی جا سکتی۔´ہمارے ہاں صورت حال یہ بھی ہے کہ عوام بعض اوقات اپنے ووٹ کو کسی ایک شخصیت کے نام پر دے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم نے عمران خان کے نام پر ووٹ دیا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ووٹ کسی فرد کے نام پر جاتا ہے یا ہماری زندگی کے معیار کے لیے؟ جب ووٹ صرف نام پر دیا جائے تو پھر ذمہ داری کا حساب کیسے ہوگا؟ اور پھر جب وہ نام کہیں اڈیالہ کی سیر کر رہا ہو تو عوامی توقعات کس درجہ پر رہیں گی؟

بعض لوگ اپنے عہدوں کو 'قاعدہ' سمجھ کر رکھتے ہیں اور عوامی خدمات کو 'اضافی سہولت'۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ سیاسی یا انتظامی ڈھانچے میں شفافیت کم ہے اور خاندانی رشتے یا سفارشیں زیادہ۔ جب عہدے تعلقات کے ذریعے چلیں تو محنت کا معیار خودبخود کمزور پڑ جاتا ہے۔ عوام کی آوازیں دب جاتی ہیں اور دفتر کی ہوا میں صرف "ہم نے کیا دیا" کی خوشبو رہ جاتی ہے۔

اگر وزارتیں اتنی ضروری نہیں تو کم از کم جو لوگ سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں ان گاڑیوں کا حساب لے لو۔ یہ تو انصاف ہے۔ سرکاری وسائل عوام کے ہیں، انہیں ذاتی استعمال کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر گاڑیاں واپس آئیں تو کم از کم پیٹرول اور پارکنگ خرچ عوام پر کم اثر ڈالیں گے۔ یہ کوئی مزاحیہ بات نہیں، یہ سادہ سا حقِ عوام ہے۔ایک اور نکتہ یہ کہ عوام کو چاہئے کہ وہ لیڈروں سے صرف وعدے نہ مانگیں بلکہ عمل مانگیں۔ اگر کوئی لیڈر مسلسل اڈیالہ جاتا ہے تو عوامی سوال پوچھیں کہ وہاں کیوں جا رہے ہو، عوامی فلاح کے بجائے ذاتی یا سیاسی معاملات تو حل نہ کر رہے ہو۔ شفافیت کا مطالبہ مزاح کا موضوع بننا بند ہونا چاہئے۔ ہمارا مزاح تب تک معنی رکھتا ہے جب تک ہم مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں، محض ہنسی کے لیے نہیں۔

آخر میں ایک چھوٹی سی نصیحت، ہلکے انداز میں مگر سنجیدگی کے ساتھ۔ اگر ہمارے لیڈر واقعی عوام کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ گھر بیٹھ کر عوامی مسئلوں کے حل پر کام کریں نہ کہ اڈیالہ کی سیر کا شیڈول بنائیں۔ عوام کو چائے اور وعدوں کی جگہ عملی نتائج چاہئیں۔ اور اگر وہ واقعی عوام کے لئے کام کرتے ہیں تو انہیں وزارتوں کی فہرست بھی جلدی پوری کر لینی چاہیے، یا کم از کم سرکاری گاڑیوں کا حساب طے کر دیں۔اور عوام؟ وہ بھی ذرا سنبھل جائیں۔ ووٹ دینا عبادت ہے مگر سوچ سمجھ کر دینا چاہیے۔ نام کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے مفاد، اپنے بچوں کی تعلیم، اور اپنی روٹی کی فکر کریں۔ ورنہ کل تک جو عہدے لوگ حاصل کریں گے، انہیں بدلنے کے بجائے ہمیں شکوہ کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟

ہنسنے مسکرانے کی عادت اچھی بات ہے، مگر مسکراہٹ کے ساتھ ذمہ داری بھی مقدار میں ہونی چاہیے۔ مسکراہٹ جب عوامی حق تلفی کے پردے میں آ جائے تو وہ مزاح کم، جرم زیادہ لگنے لگتی ہے۔ لہٰذا وزیرِ اعلیٰ ہنس سکتے ہیں، مگر عوام کی سوچ کو مسکرا کر ٹالنا آسان نہیں ہوگا۔

#KPPolitics #AdialaDiaries #MinistriesMissing #PublicPerks #Satire #MusarratUllahJan

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 824 Articles with 679982 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More