برطانیہ میں کیا سیکھا؟

برطانیہ میں کیا سیکھا؟
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کی جانب سے بیرون ملک سرکاری دورے اور اپنی چھٹی لے کر اپنے پیسے سے کسی ملک کا دورہ کرنے میں فرق یہ ہے کہ سرکاری دورے کے دوران جو سیکھنے کو ملتا ہے وہ 75 فی صدپیشہ ورانہ معلومات سے تعلق رکھتا ہے جب کہ اپنے ذاتی دورے کے دوران100 فی صداپنی دلچسپی سے متعلق علوم و فنون جاننے کا موقع ملتا ہے۔چُھٹّی تو پھر چُھٹّی ہوتی ہے جس میں ہر قسم کی آزادی ہوتی ہے سوائے اس ملک کے قوانین کی پابندی کرنے کے جس میں وہ چھٹیاں گذاری جاتی ہیں۔ چنانچہ اپنی چھُٹّی لے کر سیر و تفریح کی غرض یا کسی ذاتی کام سے پہلی مرتبہ 1973 میں برطانیہ جانے کا ارادتاً اتفاق ہؤا۔ان دنوں موبائل فون تو تھا نہیں، جس شخصیت سے ملاقات کرنی تھی اس کے بارے میں صرف اتنی معلومات تھی کہ وہ مانچسٹر شہر میں ہے ، اس کے گھر کا لینڈ لائن نمبر اس کے قریبی رشتہ دار سے کراچی میں ہی حاصل کر لیا تھا۔برطانیہ کے ویزے کی بھی شرط نہ تھی لیکن پی آئی اے کی تمام پروازیں مکمل طور پر بھری ہوئی جارہی تھیں۔ کویت ائر ویز، سیرین عرب ائر لائنز اور جاڑدن ائر سے انٹر لائن ٹکٹ پالیسی کے مطابق حاصل کئے اور جلد بازی کے باعث سیرین عرب ائرلائنز کی پرواز کے ذریعے دمشق ہوتا ہؤا لندن پہنچا، ائرپورٹ سے بس کے ذریعے پکاڈلی بس اسٹیشن اور پوچھتے پاچھتے پکاڈلی ریلوے اسٹیشن پر مانچسٹر کا ٹکٹ لے کرآٹھ گھنٹے کے خوبصورت سفر پر روانہ ہو گیا۔ تمام راستے ہرے بھرے کھیت اور لہلہاتی فصلیں ایک سحر انگیز منظر پیش کر رہی تھیں اور اندرونی کیفیت ایسی تھی کہ "منزل کا کچھ پتہ ہے نہ راہوں سے واسطہ...لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں" مانچسٹر ریلوے اسٹیشن پر ٹیلی فون بوتھ سے فون کیا اور اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا۔ٹیکسی لے کر اس کے گھر پہنچ کر دروازے کی گھنٹی بجائی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔میں نے صرف اتنا کہا کہ انسان جو چاہے کر سکتا ہے، منزل پانے کے لئے لوازمات نہیں ، قوتِ ارادی درکار ہوتی ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد گفتگو ہونے پر معلوم ہؤا کہ منزل پانے کے لئے محض معلومات ہی نہیں بلکہ علم کی ضرورت ہوتی ہے۔مقصد پورا نہ ہونے جیسے حالات کو خدا حافظ کہہ کر ایک کڑوا سبق ساتھ لئے واپس بذریعہ ٹرین لندن کے پاس (لٹل انڈیا) ساؤتھ ہال آیا جہاں ایک بس اسٹاپ پر بیٹھے سردار جی سے ملاقات ہوئی تو ایسا لگا کہ ان کو سب معلوم پڑ گیا ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے ایک لیکچر دے دیا۔شدید سرد ہوائیں تھیں اور وہ محض ایک چادر میں لپٹے ہلکی سی چپل پہنے بیٹھے تھے جب کہ میں پورے انتظام کے باوجود بھی ٹھنڈ سے کانپ رہا تھا۔سلام دعا کے فوراً بعد انھوں نے کہا "باہر سے مضبوطی کے بجائے اندر سے مضبوط بنو بھائی صاحب"۔پوچھا کیسے؟ کہنے لگے "دوسروں کی مجبوری دیکھ کر ترس کھانے کے بجائے اپنی مجبوریوں کا ازالہ کرو، دنیا اچھی لگے گی ورنہ مایوسی میں ڈوب جاؤگے۔معلومات پر بھروسہ کرنے کے بجائے علم حاصل کرکے یقین کی کیفیت پالو گے بھائی صاحب"۔معلومات تو خام، منظم ڈیٹا یا حقائق ہیں جبکہ علم تجربے، سیکھنے، اور وجدان کے ذریعے ان معلومات کو یقین میں بدلتا ہے۔ معلومات "کون،" "کیا"، "کہاں،" اور "کب" کے جوابات فراہم کرتی ہیں جبکہ علم نقطوں کو جوڑ کر "کیسے" اور "کیوں" کے جوابات فراہم کرتا ہے"۔ ایک سانس میں اتنی ساری باتیں اور وہ بھی پڑھے لکھے لوگوں کی طرح، حیرانی سے پوچھا "سردار جی آپ کیا کرتے ہو؟" بولے "روز صبح آٹھ بجے یہاں بنچ پر آکر بیٹھتا ہوں اور رات آٹھ بجے اپنے ڈیرے پر چلا جاتا ہوں، یہ جو سامنے گردوارہ نظر آرہا ہے، اس کے اندر"۔پوچھا "کہاں تک پڑھے ہو؟" بولے "اسکول دور سے دیکھا ہے، جانے کی ہمت نہیں ہوئی"
گویا اس سفر میں یہ سبق ملا کہ "معلومات اور علم میں بہت نمایاں فرق ہے، جبکہ ہم سمجھتے ہی کہ ہم بہت بڑے طرّم خان ہیں، ہمیں بہت معلومات ہیں جب کہ ہمیں علم کچھ بھی نہیں۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 304 Articles with 237916 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More