سب ٹھیک ہے صاحب !
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
سب ٹھیک ہے صاحب!
✍🏻 : علی عباس کاظمی (روپوال،چکوال) 23اکتوبر 2025ء
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کسی بھی بحران، کسی بھی بدحالی اور کسی بھی ناانصافی کے بعد ایک جملے سے خود کو مطمئن کر لیتی ہے “سب ٹھیک ہے صاحب” یہ جملہ اب تسلی نہیں رہا بلکہ قومی بیماری بن چکا ہے۔ ایک ایسی بیماری جو ہمیں اندر سے کھا گئی ہے مگر ہم پھر بھی مسکرا کر کہتے ہیں “کیا فرق پڑتا ہے ۔ ۔ ۔سب ٹھیک ہے صاحب” المیہ یہ ہے کہ اب ہمیں کچھ غلط لگتا ہی نہیں۔ سڑک ٹوٹ جائے تو ہم موٹر سائیکل کے دھچکے کو نصیب کا دھچکا سمجھ لیتے ہیں، بجلی بند ہو جائے تو موم بتی جلانے کو" عبادت" سمجھ لیتے ہیں، افسر رشوت مانگے تو ہم کہتے ہیں “چلو، کام تو جلدی ہو گیا نا” یعنی ہم نے برائی کو معمول بنا دیا ہے اور معمول سے ہٹ کر جو چیز نظر آئے وہی ہمیں غیر معمولی لگتی ہے۔ “سب ٹھیک ہے صاحب” دراصل ایک مردہ ضمیر کا جملہ ہے۔ یہ اس قوم کی پہچان بن چکا ہے جو دکھ درد سے عاری ہو گئی ہے۔ کبھی غور کریں، جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، کوئی ظلم ہوتا ہے یا کوئی دل دہلا دینے والی خبر آتی ہے، تو ہم چند لمحوں کے لیے افسوس کرتے ہیں، پھر فون رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں“چلو، سب ٹھیک ہو جائے گا” لیکن کب، کیسے اور کس نے ٹھیک کرنا ہے؟ یہ سوال ہم نے خود سے کبھی نہیں پوچھا۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ذمہ داری ہماری نہیں اور یہی سوچ بگاڑ کی جڑ ہے۔ ہمارے ہاں حالات کا تجزیہ تو ہر کوئی کرتا ہے مگر عمل کوئی نہیں۔ ہم بحث میں ماہر، لیکن اصلاح میں نکمّے لوگ ہیں حالانکہ اگر ایک لمحے کو اپنی غلطی تسلیم کر لیں تو آدھی برائیاں خود ختم ہو جائیں۔ ہماری زندگیوں میں بدعنوانی رچ بس گئی ہے۔ ۔ ۔ ہم رشوت کو “چائے پانی”، جھوٹ کو “چالاکی”، منافقت کو “مفاہمت” اور دھوکے کو “سمجھداری” کہنے لگے ہیں۔ پھر جب کوئی یہ سب نہ کرے تو ہم اسے کہتے ہیں “دنیا چلانے کے لیے تھوڑا ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے” یعنی اب دیانت داری حماقت ہے اور بددیانتی قابلیت۔ نظام اتنا الٹا ہو چکا ہے کہ سچ بولنے والا پاگل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے ذہن میں سچائی ایک نایاب جنس بن چکی ہے اور جھوٹ ایک عام کرنسی۔ آج کوئی واقعہ پیش آ جائے تو ہم موبائل فون کی اسکرینوں پر احتجاج کرتے ہیں، چند پوسٹس، دو ہیش ٹیگ، اور تین غصے بھرے کمنٹس کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ پھر کل صبح وہی لوگ، وہی نظام، وہی چہرے ۔ ۔ ۔اور ہم پھر کہتے ہیں “سب ٹھیک ہے صاحب” اب اس جملے میں سچائی نہیں، صرف فریب کی خوشبو ہے۔ہم سچائی کو سجا کر جھوٹ کی فریم میں لگا دیتے ہیں تاکہ ضمیر کو برا نہ لگے۔ ہم منافقت کے عادی ہو گئے ہیں کیونکہ سچ بولنے سے تعلق ٹوٹتے ہیں اور ہم رشتے بچانے کے لیے سچ قربان کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ نظام کا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بگاڑ نظام میں نہیں بلکہ سوچ میں ہے۔ نظام تبھی بدلتا ہے جب انسان بدلتا ہے۔ مگر ہم بدلنے کے بجائے بہانے گھڑ لیتے ہیں۔ ہم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار کبھی حکومت کو، کبھی زمانے کو اور کبھی نصیب کو ٹھہرا کر خود کو بری کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ کچھ نہیں بدلتا، مگر ہم پھر بھی کہہ دیتے ہیں — “سب ٹھیک ہے صاحب!” کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اگر سب واقعی ٹھیک ہے تو پھر یہ بگاڑ کہاں سے آ رہا ہے؟ اگر سب ٹھیک ہے تو انصاف کیوں بکتا ہے؟ اگر سب ٹھیک ہے تو تعلیم کیوں مر رہی ہے؟ اگر سب ٹھیک ہے تو غریب کیوں بھوکا ہے؟ یہ سب سوال خاموش ہیں، کیونکہ پوچھنے والا ہر شخص آخر میں تھک کر کہتا ہے“چھوڑو۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے صاحب” اصلاح وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سوال اٹھانے کی اجازت ہو۔ لیکن ہمارے ہاں سوال اٹھانا گستاخی بن چکا ہے۔ جو پوچھے وہ فتنہ گر، جو سوچے وہ باغی اور جو بولے وہ مسئلہ پیدا کرنے والا قرار پاتا ہے۔ ہم نے اپنے ذہن کے دروازے پر تالے لگا دیے ہیں اور چابی ضمیر کو دے کر سلا دیا ہے۔ اگر ہم واقعی سب ٹھیک ہونے کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ کہنا بند کرنا ہوگا کہ “سب ٹھیک ہے صاحب” کیونکہ بہت کچھ ٹھیک نہیں اور یہی تسلیم کرنا پہلا قدم ہے۔ قومیں تلوار سے نہیں، ضمیر کی موت سے مٹتی ہیں۔ جب لوگ ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنے لگیں تو زوال ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتا۔ ۔ ۔ اندر بیٹھ جاتا ہے۔ ہم نے بھی “سب ٹھیک ہے صاحب” کے جملے میں پناہ لے لی ہے، ایک ایسی پناہ جو قبر کی خاموشی جیسی ہے۔ ہم نے سچ کو خطرہ سمجھا اور جھوٹ کو حفاظت، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خاموشی ہمیں اندر سے کھا رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اس فریب کے پردے کو چاک کریں، سچ بولنے کی ہمت کریں اور اپنی "سماجی قبروں" سے باہر نکل آئیں۔ شاید ایک دن ایسا ہو کہ کوئی شہری رشوت سے انکار کرے، کوئی باپ سفارش کے بجائے محنت پر یقین رکھے، کوئی استاد فرض نہیں، کردار نبھائے۔ ہم اکثر نظام کو برا کہتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ نظام ہم ہی سے بنتا ہے۔ ہم نے سوال چھوڑ دیا۔ ۔ ۔ لہٰذا جواب خود کو مل گیا۔ جب کسی قوم کے لوگ ظلم پر خاموش، ناانصافی پر مطمئن اور جھوٹ پر مسکراتے ہیں تو زوال ان کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی بدلاؤ چاہتے ہیں تو پہلا قدم یہی ہے ۔ ۔ ۔ اب “سب ٹھیک ہے صاحب” نہیں کہنا، بلکہ اعتراف کرنا ہے کہ “نہیں صاحب، اب کچھ ٹھیک کرنا ہے”۔
|
|