انٹراکشمیر ڈائیلاگ اور رﺅف کشمیری گروپ ۔۔۔

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ایک بوڑھا درویش میرا ساتھی تھا ہم دونوں سفر کرتے کرتے ایک دریا پر پہنچے ہمیں پار جانا تھا او ر کشتی بان معاوضہ لئے بغیر کسی کو کشتی پر سوار نہ کرتے تھے میرے پاس ایک درہم تھا اس لئے مجھے تو انہوں نے بٹھا لیا لیکن بوڑھا درویش خالی ہاتھ تھا اسے کشتی میں بٹھانے سے انکار کردیا اورکشتی کو تیزی سے چلادیا مجھے اپنے ساتھی کی بے کسی پر رونا آگیا مجھے اس قدر ملول دیکھ کر بوڑھا درویش قہقہ مار کر ہنسا او رکہنے لگا اے عقل مند میرے حال پر غم نہ کھا مجھے وہی ذات دریا پار کرائے گی جو اس کشتی کو لے جارہی ہے یہ کہہ کر اس نے پانی کی سطح پر مصلٰی بچھایا اور اس پر بیٹھ کر آنا ً فاناً دریا کے پار اتر گیا ہم ساتھ ہولیے رات کے وقت میں کروٹیں بدلتارہا صبح ہوش آیا تو اس درویش نے آواز دی اے مبارک خیال دوست تو تعجب میں کیوں پڑگیا تجھے کشتی نے کنارے پر پہنچایا اور مجھے خدا نے ۔

تگہ دارد ازتاب ِ آتشِ خلیل ؑ
چوتا بوتِ موسیٰ ؑ زغرغاب ِنیل
تو برروئے دریا قدم چو زنی
چومردان کہ برخشک تردامنی

یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کی گرمی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کی حفاظت کی اور اسی طرح اس نے حضرت موسیٰ ؑ کے صندوق کو دریا ئے نیل میں غرق ہونے سے بچایا تُو اولیاءاللہ کی طرح دریا کی سطح پر کیسے قدم دھر سکتاہے جبکہ تیرا دامن خشکی ہی پر تر ہے یعنی گناہوں میں ملوث ہے ۔

قارئین انٹراکشمیر ڈائیلاگ کی جتنی اہمیت اور ضرورت آج محسوس کی جارہی ہے آج سے پہلے اس کی ضرورت اتنی محسوس نہ کی گئی مقبوضہ کشمیر ،آزادکشمیر ،گلگت وبلتستان ،لداخ ،تبت او رپوری دنیا میں بسنے والے کشمیریوں میں یہ خیال زور پکڑتا جارہاہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دوممالک کا سرحدی تنازعہ قرار دے کر جلد ہی اس کا ”مستقل حل “نکالا جارہاہے او ریقینا یہ مستقل حل کشمیر کی آزادی کی تحریک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردے گا بین الاقوامی کھلاڑی ،انکل سام ،بھارت ،برطانیہ اور دیگر کئی طاقتیں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق اور خود مختارکشمیر دونوں آپشنز کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 64سالوں کے دوران خود مختار کشمیر کا نظریہ رکھنے والوں کو بھارت ،پاکستان او رکشمیر کے حکمرانوں نے ہمیشہ ظلم وستم کو نشانہ بنایا حالانکہ یہ نظریہ سو فیصد پاکستان کے مفادات کی نگہداشت کرتاہے اس نظریے کے بانی بزرگ کشمیری رہنما او رآج کے کشمیر کی سب سے دیانت دار اور لائق شخصیت عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ نے محاز رائے شماری بناتے ہوئے شہید کشمیر مقبول بٹ کے ساتھ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا او راس بات پر زور دیا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل لڑائی یا جنگ نہیں بلکہ میز پر بیٹھ کر یا سیاسی میدان میں ہے آج کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد پاکستانی اور کشمیری لیڈر شپ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ کشمیر کے لیے تین جنگیں کرنے کے بعد اس کا حل گفت وشنید کے ذریعے ہی نکالا جاسکتاہے ۔

قارئین لارڈ نذیر احمد ،عبدالمجید ترمبو ،ڈاکٹر فائی اور تمام اوورسیز کشمیری لیڈر شپ عرصہ دراز سے انٹرا کشمیر ڈائیلاگ پر زور دے رہی ہے کیونکہ ان لیڈرز کا یہ کہنا ہے کہ کشمیری آپس میں مل بیٹھ کر پہلے یہ طے کریں کہ وہ کیاچاہتے ہیں تاکہ بین الاقوامی فورمزپر جب وہ اپنا کیس لے کرجائیں تو کسی قسم کی کنفیوژن پید انہ ہو آج بدقسمتی سے حریت کانفرنس ایک بات کرتی ہے تو لبریشن فرنٹ کوئی دوسری اور یہ تفریق الا ماشاءاللہ تمام کشمیری سیاسی جماعتوں میں انتہائی آسانی سے دیکھا جاسکتاہے اس تفریق کی وجہ سے بین الاقوامی دنیا میں کشمیر کے مسئلے اور اس کے حل کے حوالے سے غلط فہمیاں پہلے بھی جنم لیتی رہی ہیں اور خطرہ ہے کہ آئندہ بھی لیتی رہیں گی اس لیے سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ کشمیر کے گھر میں بسنے والے تمام اہل خاندان اکٹھے بیٹھیں اور سب سے پہلے خود یہ طے کریں کہ ترجیحات کیا ہیں اور منزل کون سی ہے ۔

قارئین ہم نے کالم کے آغاز میں یہ بات بیان کی ہے کشمیریوں میں یہ عدم تحفظ تقویت پکڑتا جارہاہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت امریکی دباﺅ کے تحت کشمیر پر ہتھیار ڈالنے والی ہے اور اس کی وجہ مشرقی سرحدوں پر طالبان اور القاعدہ کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی کا سلسلہ اور دوسری جانب امریکہ اور نیٹو افواج کی طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت اس وقت انتہائی پریشانی کا شکاردکھائی دیتی ہے کیونکہ حکومت کوئی بھی فیصلہ کرلے کشمیر پاکستانیوں کے دل میں بستاہے اور جس طرح پوری پاکستانی قوم نے جنرل مشرف کے بیہودہ الزامات لگانے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان جوہری سائنسدان کو اپنے دل ودماغ میں محسن امت مسلمہ او رایک ہیرو کی حیثیت دی ہے وہ اپنی جگہ پر قائم دائم ہے اور آج کے پاکستان کی مقبول ترین شخصیت جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی حکومتیں چاہے اپنے تئیں کشمیر پر سودے بازیاں کرتی رہیں ،بھارت کنٹرول لائن پر باڑ لگاتارہے ،انکل سام کوئی اور آپشن لے کر آتے رہیں یہ بات طے ہے کہ 18کروڑ پاکستانی کشمیر پر نہ تو کوئی سودے بازی قبول کرتے ہیں اور نہ قبول کریں گے اب یہ ہمارے حکمرانوںپر منحصر ہے کہ وہ جمہور کی آواز سنتے ہیں یاسکوں کی جھنکار ۔۔۔کشمیر ی اگر اپنی آزادی کے لیے ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کرسکتے ہیں تو مزید قربانیاں بھی دینے کے لیے تیار ہیں بقول غالب

عجب نشاط ہے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاﺅں سے ہے دو قدم آگے
قضانے تھا مجھے چاہا خراب ِ بادہءالفت
فقط”خراب “لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
دل وجگر میں پر افشاں جو ایک موجہ ءخوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
یہ عمربھر جو پریشانیاں اُٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیواے طرہّ ہائے خم بہ خم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

قارئین اس وقت نازک مرحلہ درپیش ہے راقم نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطاالرحمن ،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ،برطانوی رکن ہاﺅ س آف لارڈ ز لارڈ نذیر احمد ،سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان ،وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو ،وزیر امور دینیہ افسر شاہد ایڈووکیٹ ،بزرگ رہنما عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ،ڈاکٹر مسفر حسن ،مبشر لون ،ڈاکٹر شیریں مزاری اور دیگرلوگوں کے انٹرویو زکیے جو آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93میرپور سے براہ راست پوری دنیا میں نشر کیے گئے ان انٹرویوز کے دوران پوری دنیا سے ہزاروں کشمیریوں او رپاکستانیوں نے شرکت کی اور سوالات کرتے ہوئے پاکستانی اور کشمیری حکمرانوں کی مصالحت کو پالیسی کو بزدلی اور بے غیر تی سے تعبیر کیا تمام لوگوں نے کشمیر پر کسی بھی سودے بازی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اب یہ فیصلہ پاکستانی حکومت نے کرنا ہے کہ اب کی دفعہ وہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل کی بات مانتی ہے یا ڈالرزکے لیے کشمیر کا سودا کرلیتی ہے قوم پرست جماعتیں تو آج بھی ”شملہ معاہدہ“اور”معاہدہ تاشقند “کو ماننے سے انکاری ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں ۔

قارئین ہمیں لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے کے سربراہ رﺅف کشمیری نے گزشتہ دنوں رابطہ کرکے بتایا کہ وہ چکوٹھی کے مقام پر بارڈر ایریاز میں پورے کشمیر کی اعلیٰ قیادت کو ”انٹرا کشمیر کانفرنس “منعقد کرکے اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اس سلسلہ میں انہیں مدد کی ضرورت ہے ہماری حکومتی اداروں او رپوری دنیا میں آباد مخیر کشمیریوں سے گزارش ہے کہ رﺅف کشمیری کی مددکی جائے کیونکہ وہ یہ کانفرنس اپنے کسی مقصدکے لیے نہیں منعقد کروانا چاہتے بلکہ ان کی خواہش اور حسرت ہے کہ اُس پار اوراِس پاربسنے والے کشمیری اکٹھے ہوں اور مل بیٹھ کر کشمیر کے مسئلے کو ڈسکس کریں رﺅف کشمیری کی یہ خواہش پوری کشمیری قوم کے مشترکہ مفادات کے لیے ہے اور اس کے ذریعے بٹنے والے خاندان دوبارہ مل سکتے ہیں اس سلسلہ میں ایک بھارتی پنجابی شعر یا د آتاہے

انہا ں اکھیاں دی لالی دسدی اے
روئے تسی وی او ،روئے اسی وی آں

قارئین ہمیں امید ہے کہ رﺅف کشمیری کے اس خیال کو جلد عملی جامہ پہنانے کے لیے کشمیری اور پاکستانی حکومتیں اپنا کردار اداکریں گی

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک نودولتیے نے اپنا شجرہ نسب مرتب کرانے کے لیے ایک تجربہ کار آدمی کو مامور کیا کچھ دنوں بعد اس کے دوست نے پوچھا یار کیا بنا اس کام کا ،شجرہ کہاں تک پہنچا ؟
نودولتیے نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا
”کچھ نہ پوچھو یار اس نے میرے خاندان کے بارے میں اتنی معلومات اکٹھی کرلی ہیں کہ آج کل میں اسے زبان بندی کے لیے بھاری فیس اداکر رہاہوں “

قارئین کچھ طاقتوں کو یہ خطرہ ہے کہ کشمیر ی بھی اگر مل بیٹھے تو پھر زبان بندی کی قیمت دینا ناممکن ہوجائے گا ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374259 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More