سیاست کے کھیل کا نیا کپتان
عمران خان ایسی فارم میں آیا ہے کہ اب ہر بال پر سکسز ہی لگا رہا
ہے۔30اکتوبر2011 ءکو لاہور میناِرپاکستان میں تو ایسا چھکا لگایا کہ سیاست
کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے چھکے چُھڑا دئیے ۔سیاست کی ریس کے لنگڑے گھوڑے نے
ایسی رفتار پکڑی ہے کہ اب برق رفتار گھوڑے بھی خچر بنتے دکھائی دے رہے
ہیں۔پاکستان تحریک ِانصاف کو مینارِپاکستان کے اس جلسئے سے جو اُمیدیں
وابسطہ تھیں اب اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمام اُمیدیں پوری ہوگئی ہیں اور
ساتھ ہی اُن قیاس آرائیوں نے بھی دم توڑ دیا ہے جو اس سوچ وچا ر میں تھے کہ
مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں عمران خان لوگوں کو جمع کرنے میں ناکام
رہینگے۔جس بھرپور طریقے سے لوگوں نے جلسے میں شرکت کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے
کہ اب پاکستان کے عوام واقع ہی تبدیلی چاہتے ہیں۔یہ سیاسی جلسہ اپنی نوعیت
کا وہ پہلا جلسہ شُمار کیا جارہا ہے جس میں 6ماہ کے بچے سے لیکر 80سال کے
بزرگ تک نے شرکت کی اور بہت سی فیملیزبھی اس جلسہ میں موجود تھیں۔لوگوں میں
اتنا جوش وخروش کافی عرصے بعد دیکھنے کو مِلاہر ایک زبان پر ایک ہی نعرہ
تھا ،انقلاب زندہ باد یا پھر عمران خان قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
انقلاب زندہ باد ،انقلاب زندہ باد، مینارِپاکستان سے لگائے گے ان نعروں کی
آواز اتنی بلند تھی کہ شاید اب تک بھی اسلام آباد کے ایوانوں میں اُنکی
گونج سُنائی دے رہی ہوگئی۔جلسے میں شریک لوگوں کے اند ر پائے جانے والا جوش
و جذبہ اور جنون قابلِ رشک تھا ۔جب 23مارچ 1940 ءکو قرارداد ِپاکستان منظور
ہوئی تھی یہی وہ مقام تھا اورعوام میں بھی ا یسا ہی جوش اور جذبہ تھا اور
عوام کے اسے جنون سے ہی پاکستان کی آزادی ہمیںنصیب ہوئی اور انشاءاﷲاب یہی
جنون پاکستان میں تبدیلی لے کر آئیگا ۔پورے پاکستان میں اور خاص طور پر اب
لاہو ر میں جس طرح لوگوں نے عمران خان کا خیر مقدم کیا ہے اب واضع طور پر
مسلم لیگ (ن) اور کئی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیئے خطرے کی گھنٹی بج چُکی
ہے۔پاکستان کے کئی سینئر تجزیہ نگاروں نے اس بات کا انکشاف پہلے ہی سے کر
دیا تھا کہ اگر عمران خان 30اکتوبر والے جلسہ کو کامیاب بنانے میں پورے
اُترتے ہیں تو پھر پنجاب سے (ن) لیگ اپنی چودراہٹ ختم سمجھے۔ جہاں تک جلسے
کی کامیابی اور لوگوں کے ہجوم کی بات ہے تو ایک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ،میناِرپاکستان
پر 1986 ءکے بعد 30 اکتوبرکو پہلی بار کسی بھی سیاسی جلسے میں لوگوں کے
اتنے بڑے ہجوم کو دیکھا گیا ہے۔ناصر باغ سے بھاٹی گیٹ تک کو لوگوں سے بھرنا
الگ بات ہے اور مینارِپاکستان جیسے وسیع العرض میدان کو بھرنا الگ بات ہے ۔پنجاب
میں اپنی چودراہٹ کو برقرار رکھنے کے لیئے 28 اکتوبر 2011 ءکو مسلم لیگ(ن)
کی ریلی کا اصل مقصد عمران خان کو (اپنی طاقت ) لوگوں کا ہجوم دکھا کے
ڈرانے کا تھا لیکن پلان تھوڑاُلٹا ہو گیا ۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو عمران
خان کے اتنے بڑے کامیاب جلسے کی توقع بالکل نہیں تھی اور وہ بھی لاہور کے
اند رجو (ن) لیگ کا گڑھ ہے۔بچارے شریف برادران ڈارانا تو عمران خان کو
چاہتے تھے لیکن عمران خان کو عوام کی سونامی میں لِپٹا دیکھ کر شاید خود ہی
گھبرا گئے ہونگے۔ میاں نوازشریف صاحب نے پچھلے چند مہینوں سے پنجاب سے
زیادہ تر سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیاں دکھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں وہ شاید
یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب تو اُن کی مٹھی ہی میں ہے اور سند ھ میں اپنے پاؤں
جمانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن عمران خان کے اس کامیاب ترین جلسے کے
بعد نواز شریف کو اپنے گیم پلان تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔کیونکہ
عمران خان نے اب کھل کر نوازشریف کو پنجاب کے سیاسی میدان میں کھیلنے کی
دعوت دے رہے ہیں ۔عمران خان نے اپنے جلسے میںنوازشریف اورصدرآصف علی زرداری
دونوں پر کُھل کر تنقیدکی کہ ان دونوں پارٹیوں نے ملکر عوام کو بیوقوف
بنایا ہوا ہے دکھاوے کے لیئے اُپر سے لڑائی اور اندر سے بھائی بھائی،یہ
پاکستان کی عوام کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل ،کھیل رہے ہیں ایک یہاں ہوتا
ہے تو دوسرا لندن اور اب نشاءاﷲوہ دن دور نہیں جب ان دونوں کو لندن
بھیجونگا اور پھر جہاںمیاں صا حب پر پنجابی میںفقرے کسے گئے جیسے کہ،میاں
صا حب جانڑ دو ہونڑ ساڈی واری وی آنڑ دو، وہی پر صدر زرداری صاحب کو آڑے
ہاتھوں لیا ،پاکستان کی سب سے بڑی بیماری آصف زرداری ، اس فقرے کو بار بار
استعمال کرتے رہے۔ یہ باتیں یقینا قابلِ تفتیش ضرور ہیں کہ کیا یہ ضروری ہے
کہ اب ہر سیاسی جلسہ میں ایک دوسرے کے اُوپر کیچڑ اُچھالا جائے ،ایک دوسرے
کے لیئے نازیبا الفاظ استعمال کئیے جائیں،پاکستان کے عوام کو بھی اس معاملے
میں عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے کسی بھی سیاستدان کی دلشکنی کر نی
چاہیے۔اگر پاکستان میں تبدیلی لانی ہے تو پھر ہر طرح کی تبدیلی لائی جائے
یہ سیاستدانوں کی لاکھوں لوگوں کے سامنے بولی جانے والی بد زبانی پر بھی
پابندی ہو نی چاہیے۔پاکستان کے تقریباً90%عوام سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں
اس لیئے شرکت کرتے ہیں کہ اُن کو یہ اُمید ہوتی ہے کہ شاید اُ نکے مفادات
کی باتیں ہونے والی ہیںلیکن سننی پڑتی ہیںنئے نئے قسم کی گالیاں گلوچ ۔
مینارِپاکستان کے جلسے کا ایک اہم پہلو یہ بھی نظر آیاجس میں لوگوں نے اس
بات کا بھرپور اظہار کیا کہ ہم اب تبدیلی چاہتے ہیں اور پاکستان میں تبدیلی
لانے کے لیئے عمران خان سب سے بہتر ہے اور اس بار عمران خان کوچانس ضرور
ملنا چاہیے ۔جلسہ میں آئے کچھ لوگ تو یہا ں تک کہے رہے تھے کہ پاکستان کے
اس مشکل وقت میں صرف عمران خان اُمید کی واحد کرن ہیںلوگ ایسے جذباتی ہو
رہے تھے کہ عمران خان کے لیئے ووٹ کے ساتھ ساتھ اپنی جان دینے کی بھی باتیں
کر رہے تھے ۔لوگوں میں ایسے جذبات اُس وقت دیکھنے کو ملے تھے جب شہید
ذوالفقار علی بُھٹونے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تھی ،شہید ذوالفقار علی
بُھٹوپاکستان کے عوام کے دلوں میں ایسے بسے ہوئے ہیں کہ چند لوگوں کا تو
یہاں تک کہنا ہے کہ عمران خان کے اندرشہید ذوالفقار علی بھٹو کی روح گھس
گئی ہے اور جسطرح شہید ذوالفقار علی بھٹو پہلے انقلاب لے کر آئے تھے اب وہ
ہی انقلاب عمر ان خان لے کر آئیں گے ۔
عمران خان کی پاکستان کے عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت یقینا تمام سیاسی
جماعتوں کے لیئے ایک چیلنج ہے۔ جیسا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ تما م
سیاستدان اپنے اپنے اثاثے ظاہر کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ سِول
نافرمانی کی تحریک چلائیں گئے ۔پاکستان کے عوام کو بھی اس پر ڈٹ جانا چاہیے
کہ جو بھی سیاستدان آنے والے الیکشن میں حصہ لے گا وہ اپنے اثاثے ظاہر کرے
اور جو ایسا نہیں کرے گا عوام اُسے کھیلنے سے پہلے ہی آوٹ کرکے گراﺅنڈ سے
باہر بھیج دیں،یہی ایک طریقہ ہے ،باصلاحیت،ایماندار ،دیانت دار قیادت کو
آگئے لے کر آنے کا اور مفادپرستوں ،مُنافقوں اور لُٹیروں سے چُھٹکارہ پانے
کا۔
آ نے والے الیکشن میں تقریباً ڈیڑ ھ سا ل کا عرصہ باقی ہے لیکن 30اکتوبر کو
مینارِپاکستان میں آنے والے عوام کے اس بڑے سیلابی ریلے نے یہ واضع کردیا
ہے کہ بس بہت ہو چُکا ،قوم جاگ اُٹھی ہے اور اب عوام صرف اور صرف تبدیلی ہی
چاہتے ہیںآنے والے الیکشن کے نتائیج کچھ بھی ہوں لیکن ایک بار تو ! عمران
خان کے ایک چھکے نے سب کے چھکے چُھڑادیئے ہیں۔۔۔۔ |