ڈاکٹر افضل رضوی – آسٹریلیا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر افغانستان کے اندرونی حالات کا ہمیشہ سے گہرا تعلق رہا ہے اور اس تعلق کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان دہائیوں کی جنگ، مداخلت اور نظریاتی تصادم کا شکار رہا ہے اور وہ ابھی تک اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اگرچہ افغانستان ایل اسلامی ملک ہے لیکن اس کے نام نہاد حکمرانو ں کا جھکاؤ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ناروا تعلق رکھنے والے ہمسائے کی طرف ہی رہاہے ماسوا چند ادوار کے۔اسی کشمکش نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کر رکھا ہے۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف بھارت کی جارحیت اور دوسری طرف افغانیوں کا ناروا رویہ۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانیوں کو اپنا بھائی سمجھا اور ان کی برے سے برے وقت میں امداد کی۔ سرد جنگ کے دوران افغان مجاہدین کی حمایت سے لے کر طالبان کے عروج اور 2021 کے بعد کے حقائق تک، پاکستان کا افغانستان میں کردار پیچیدہ رہا ہے۔اس کالم موجودہ افغان مسئلے کے پیش نظر پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کا جائزہ لیا گیاہے، جس میں بھارت کی تازہ ترین مصروفیات، طالبان کی تربیت میں پاکستان کے تاریخی کردار، اور دہشت گردی کے خلاف اسلامی فقہی موقف بھی شامل ہیں۔ پاکستان اپنے اسٹریٹجک محل وقوع کی بدولت جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور شرق الاوسط کے درمیان علاقائی سفارت کاری میں ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے خارجہ پالیسی کے اہداف بھارت اور افغانستان سے تاریخی طور پر کبھی ہم آہنگ اور کبھی متصادم رہے ہیں، جس نے بین الاقوامی تعلقات کوپچیدہ صورتِ حال سے دو چار رکھا ہے۔ 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی دوبارہ اقتدار میں آمد نے پاکستان کے علاقائی کردار اور ذمہ داری کے بارے میں پرانی بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ یاد رہے،1980 کی دہائی کے دوران پاکستان نے سوویت حملے کے خلاف افغان مجاہدین کی حمایت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی مالی معاونت کے ساتھ، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی (ISI) ہتھیار، تربیت اور لاجسٹک سپورٹ کا ذریعہ بنی۔ بعد میں یہی ڈھانچہ طالبان تحریک کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوا، جو زیادہ تر افغان دینی مدارس سے ابھری، جن میں سے کئی پاکستان کی سرحدی علاقوں میں واقع تھے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں، پاکستان نے طالبان کی حمایت کی کیونکہ وہ افغانستان میں انتشار کے خاتمے کی قوت کے طور پر ابھرا۔ اسلام آباد نے 1997 میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا، اس امید میں کہ یہ مغربی سرحد کو محفوظ بنائے گا اور بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کرے گا۔ تاہم 11 ستمبر 2001 کے بعد، پاکستان نے باضابطہ طور پر امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی اور طالبان سے فاصلے اختیار کیے۔ پھر بھی خفیہ حمایت کے الزامات جاری رہے، جو پاکستان کو اس گروہ کی بقا کے لیے ایک ناگزیرسمجھتے ہیں۔طالبان کو اسٹریٹجک فائدے کے لیے پروان چڑھانے اور بعد میں ان کے نظریاتی ذیلی گروہوں کا سامنا کرنے کی یہ دوہری میراث پاکستان کی بین الاقوامی سفارت کاری میں مشکلات کا باعث ہے۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں دوبارہ آنے کے بعد، پاکستان نے ابتدا میں کابل میں دوستانہ حکومت کے قیام کا خیرمقدم کیا۔ مگر توقعات جلد مایوسی میں بدل گئیں جب تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی جانب سے سرحدی حملے بڑھ گئے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ وہ TTP کے شدت پسندوں کو پناہ دے رہی ہے، جبکہ کابل اس کی ذمہ داری سے انکار کرتا ہے۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ بھارت کے دورے کے بعد کشیدگی بڑھی، جس میں انہوں نے پاکستان مخالف بیانات دیے – جسے اسلام آباد نے ایک اشتعال انگیز سفارتی اشارہ اور کابل کے نئی دہلی کی جانب جھکاؤ کی علامت کے طور پر دیکھا۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ علاقائی سیاست نے پاکستان کے اثر و رسوخ سے آگے بڑھ کر اپنا رخ اختیار کر لیا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی موجودگی(امداد، تعمیر نو اور سفارتی رابطے) پاکستان کے لیے اسٹریٹجک خدشات پیدا کررہی ہے۔ پاکستان اسے مشکوک نظر سے نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ پاکستان کو دو سرحدوں سے گھیرے کی ایک مذموم چال ہے جس میں افغان حکومت کا کردار مکروہ نطر آرہا ہے۔۔ نئی دہلی کے لیے افغانستان وسطی ایشیا تک رسائی کا ذریعہ ہے۔یہ بات اہم ہے کہ بھارتی حکومت نے افغانستان میں طالبان کی وسیع پیمانے پر تنقید کی اور امریکی موقف کی حمایت کی۔ لیکن امریکی سفارتی موڑ اور خصوصی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات، ٹویٹس اور ڈیجیٹل میڈیا پر انٹرویوز نے بھارت کو طالبان کے بارے میں اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا، اور یہی بہترین موقع تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات مضبوط کرے اور پاکستان کو محدود کرے۔ تاہم، پاکستان کی افغان پالیسی کو الگ تھلگ نہیں سمجھا جا سکتا؛ یہ وسیع تر علاقائی اور عالمی تعلقات سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے، جو اسے علاقائی جغرافیائی سیاست میں کلیدی عنصر اور افغانستان میں عالمی مفادات کے لیے محور بناتا ہے۔ چین پاکستان کا سب سے قریبی اور قابل اعتماد شراکت دار ہے۔ اسلام آباد کا بیجنگ کے ساتھ تعاون، خاص طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے، تجارت، توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے علاقائی استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مستحکم افغانستان ان طویل مدتی اقتصادی سرمایہ کاریوں کی حفاظت اور وسطی ایشیا سے رابطے کو بڑھانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ عملی اور تجارتی بنیادوں پر شراکت داری رکھتا ہے۔ حالانکہ دہائیوں کے بدلتے ہوئے اتحادوں نے اعتماد کو کمزور کیا، واشنگٹن اب بھی دہشت گردی کے خلاف تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور افغانستان میں انسانی ہمدردی کے آپریشنز کے لیے اسلام آباد پر انحصار کرتا ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے بین الاقوامی سلامتی میں شراکت دارامریکہ او رپاکستان کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں جس نے پاکستان کو ایک مشکل صورتِ حال سے دو چار کر رکھا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر پذیارائی ہورہی ہے تو دوسری طرف اندرونِ خانہ اس کی پا لیسیوں پر تنقید کی جارہی ہے۔ مزید برآں، ایران اور روس نے افغان امور میں اپنی مصروفیات بڑھائی ہیں، جو سکیورٹی، اقتصادی اور نظریاتی مفادات کی پیروی کرتے ہیں۔ تہران افغانستان کی شیعہ کمیونٹی پر اثر ڈالنے اور سرحدی سکیورٹی برقرار رکھنے کی کوشش کررہاہے، جبکہ ماسکو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنے اسٹریٹجک وجود کا توازن برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ یہ تبدیلیاں اسلام آباد کے توازن کے عمل کو مزید پیچیدہ بناچکی ہیں، جہاں اس کے اقدامات پر متعدد عالمی طاقتوں نے اپنی نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔اس پیچیدہ سفارتی جال میں، طالبان کے ساتھ پاکستان کی تاریخی شمولیت ایک اور پیچیدگی کی پرت شامل کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے طالبان کو کبھی بھی اپنے مفاد کی خاطر پروان نہیں چڑھایابلکہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواب دیکھا جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔ وہ طالبان جو پاکستان کی عسکری قیادت کے بغیر کو ئی عمل نہیں کرتے تھے اب کسی بیرونی قوت کے اشاروں پر آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ یہاں اسلامی اخلاقی فریم ورک، جیسا کہ پروفیسر طاہر القادری جیسے علماء نے بیان کیا، داخلی اور بین الاقوامی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قادری کے 2010–2011 کے فتوے اور خطابات کے مطابق، دہشت گردانہ کارروائیاں یہاں تک کہ جب خود ساختہ مسلمانان کی طرف سے کی جائیں،اسلامی اصولوں کے خلاف ہے، بشمول معصوم جان کی حرمت، جنگ کے اخلاقی حدود، اور انصاف قائم رکھنے کی ذمہ داری۔ یہ نقطہ نظر پاکستان کی انتہا پسند گروہوں سے لڑنے کی کوششوں کو جائز قرار دیتا ہے اور قومی سلامتی کی پالیسی کو مذہبی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر زور دیتا ہے، جس سے پاکستان کا علاقائی استحکام میں کردار مضبوط ہوتا ہے۔ یوں، پاکستان کی خارجہ پالیسی متعدد، بعض اوقات متصادم، عالمی اور علاقائی دباؤ کے درمیان کام کرتی ہے۔ افغانستان میں کامیابی صرف اسٹریٹجک سفارت کاری اور سرحدی انتظام پر منحصر نہیں بلکہ بین الاقوامی توقعات کو اسلامی اخلاقی اصولوں اور داخلی سلامتی کی ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر بھی منحصر ہے۔مزید برآں، طالبان کے ساتھ پاکستان کی شراکت کے نتائج مخلوط رہے ہیں۔ اگرچہ اس نے عارضی اسٹریٹجک اثر فراہم کیا، اس نے داخلی بنیاد پرستی، بین الاقوامی بے اعتمادی، اور طویل مدتی سلامتی کے چیلنجز میں بھی اضافہ کیا۔ وہی نیٹ ورک جو کبھی ''اسٹریٹجک اثاثہ'' کے طور پر دیکھا گیا تھا، بعد میں پاکستان میں عدم استحکام کا ذریعہ بن گیا۔ نظریاتی قیمت خاص طور پر بھاری رہی: اسلام کی انتہا پسند تشریحات نے پاکستان کی معتدل مسلم قوم کے طور پر شبیہہ کو مسخ کیا اور اس کے بین الاقوامی تعلقات کو پیچیدہ بنادیا۔ پاکستان افغان عدم استحکام کے انسانی بوجھ کو اٹھاتا رہا،لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی، تجارت کا انتظام، اور غیر قانونی سرحد پار سرگرمیوں کا سامنا۔پاکستان اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی افغانستان میں فراہمی کا ایک اہم راستہ بھی ہے، اگرچہ کشیدگی موجود ہے۔لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ، انتہا پسندانہ تشدد اور سکیورٹی خدشات نے عوامی برداشت اور علاقائی تعاون کو بے حد گزد پہنچائی ہے۔ پاکستان کے لیے ایک مؤثر افغان پالیسی تیار کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر درکار ہے جو سکیورٹی کے تقاضوں کو اقتصادی مراعات، سفارتی تعلقات، اور اخلاقی امور کے ساتھ توازن میں رکھے۔ ماضی کی حکمت عملیوں اور موجودہ چیلنجز کا تنقیدی جائزہ درج ذیل سمتوں کی نشاندہی کرتا ہے: اگر دیکھا جائے تو فوجی اور نظریاتی تقویت نے افغانستان میں وقتی استحکام توپیدا کیا لیکن اس کے نتیجے کے طور پر خطے میں کسی حد تک تناؤ نہ صرف اپنی جگہ قائم رہا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔مزید یہ کہ بد اعتمادی کی فضا کو بھی فروغ دیا۔اگر اب بھی پالیسی کی سمت کو انفراسٹرکچر کی ترقی، سرحد پار تجارت، اور علاقائی ربط کے ذریعے اقتصادی سفارت کاری کی طرف موڑا جائے تو یہ باہمی انحصارکو فروغ دے سکتی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اول اعتماد بڑھے گا اور طرفین تصادم کے بجائے تعاون کو ترجیع دیں گے۔یہ حکمت عملی نہ صرف فوری سیکیورٹی خطرات کو کم کر سکتی ہے بلکہ طویل المدتی سیاسی استحکام اور سماجی و اقتصادی یکجہتی کے لیے بھی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ انتہا پسند گروہ جزوی طور پر اسلام کی تعلیمات کی غلط تشریح سے جواز حاصل کرتے ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری جیسے علماء کے بیان کردہ مستند مذہبی نقطہ نظر کو تعلیمی نصاب، عوامی پالیسی، اور میڈیا مباحثے میں شامل کرنا ان نظریاتی جواز کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بنیاد پرستی کا مقابلہ ہوگا بلکہ پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسی اخلاقی تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ ہوگی، جس سے شہریوں اور عالمی شراکت داروں کی نگاہ میں ساکھ بڑھے گی۔ سفارتی تنہائی اور مخالفانہ بیانیہ نے تاریخی طور پر پاکستان کے کابل میں اثر و رسوخ کو محدود کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور تنظیم اسلامی تعاون (OIC) جیسے کثیر الجہتی فورمز کے ذریعے فعال طور پر مشغول ہو کر پاکستان علاقائی فیصلے سازی، کشیدگی کے مذاکرات، اور مشترکہ منصوبوں کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس طرح کی سفارت کاری افغانستان کو صرف حریف طاقتوں جیسے بھارت سے حمایت حاصل کرنے کے امکانات کو کم کرتی ہے، جو پاکستان کے لیے اسٹریٹجک نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ سرحد پارسے عسکریت پسندی ایک مستقل چیلنج ہے۔ نگرانی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور افغان حکام کے ساتھ مربوط سکیورٹی اقدامات کو مضبوط بنانا محض ردعمل نہیں؛ یہ تشدد کے پھیلاؤ کے خلاف پیشگی حفاظتی اقدام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مضبوط سرحدی انتظام نافذ کرنے اور انسانی ہمدردی کے تقاضوں میں توازن رکھا جائے، جس سے علاقائی جائزیت برقرار رہے گی اور بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کے اصولوں کی تعمیل بھی ممکن ہو گی۔ پاکستان کی بین الاقوا می ساخت اکثر مبینہ شدت پسند گروہوں کی وجہ سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے حکومت بہر صورت اپنی رٹ قائم کرے اور کسی بھی گروہ یا جماعت کو خلاف قانون کام کرنے کی اجازت نہ دے۔ اپنی خارجہ پالیسی کو انصاف، امن اور معصوموں کے تحفظ کے اسلامی اخلاقیات پر مبنی قرار دے کر پاکستان خود کو دہشت گردی کا شکار اور انتہا پسندی سے لڑنے والا ذمہ دارملک ثابت کر سکتا ہے۔ یہ بیانیہ عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعمیری تعلقات کو مربوط بنانے مین ممد و معاون ثابت ہو گا اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے گا۔ المختصر، پاکستان کا افغانستان کے ساتھ تعلق اس کی خارجہ پالیسی کے چیلنجز کے مرکز میں ہے۔ طالبان کے عروج میں تاریخی شمولیت سے لے کر اپنی سرحدوں میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے تک، پاکستان کا سفر اسٹریٹجک عملی حکمت اور اخلاقی احتساب دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر، جیسا کہ علماء نے واضح کیا، آگے کا راستہ پیش کرتا ہے، یہ یقین دلاتا ہے کہ اسلام کی حقیقی روح امن، انصاف اور انسانی جان کی حرمت میں مضمر ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف سیاسی ضرورت نہیں بلکہ نبی ﷺ کی تعلیمات سے منسلک ایک مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ |