چابہار بندرگاہ: امریکہ کی رعایت، بھارت کا موقع، اور خطے کی نئی بساط
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
امریکہ نے ایک بار پھر بھارت کو ایران کی چابہار بندرگاہ پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت — جو دراصل پابندیوں سے چھ ماہ کی چھوٹ ہے — بھارت کے لیے وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر اس کے اثرات پورے خطے میں محسوس کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک تجارتی رسائی کے امکانات نئے سرے سے ابھر رہے ہیں، اور پاکستان، ایران اور چین اپنی اپنی سمت میں اقتصادی چالیں چل رہے ہیں۔
چابہار بندرگاہ ایران کے جنوب مشرق میں واقع ہے، اور بھارت کے لیے یہ ایک ایسا دروازہ ہے جو پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی دیتا ہے۔ بھارت 2016 سے اس منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ مئی 2024 میں نئی دہلی اور تہران کے درمیان دس سالہ معاہدہ طے پایا، جس کے تحت بھارتی کمپنی انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ بندرگاہ کے شہید بہشتی ٹرمینل کی دیکھ بھال اور ترقی پر 120 ملین ڈالر خرچ کرے گی۔
یہی معاہدہ واشنگٹن کے لیے پریشانی کی وجہ بنا، کیونکہ امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیے ہوئے ہے۔ تاہم اب امریکہ نے ایک بار پھر عملی طور پر بھارت کو چھوٹ دے دی ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ چابہار کی اسٹریٹجک اہمیت صرف ایران یا بھارت تک محدود نہیں، بلکہ افغانستان کے استحکام سے جڑی ہے۔چابہار کے ذریعے بھارت کو ایک ایسا متبادل راستہ ملتا ہے جو پاکستان کے بغیر تجارت کی اجازت دیتا ہے۔ اس راستے سے افغان تجارت بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ طالبان حکومت کے دوران کابل کے اسلام آباد سے تعلقات بگڑ چکے ہیں۔ پاکستان طالبان پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے، جبکہ کابل اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نے اپنے سفارتی رویے میں نرمی لائی ہے۔ چند ہفتے قبل طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان محدود سفارتی بحالی پر اتفاق ہوا۔ نئی دہلی نے کابل میں اپنے ٹیکنیکل مشن کو مکمل سفارت خانے میں تبدیل کرنے کا عندیہ دیا، جو باضابطہ تسلیم کیے بغیر ایک عملی سفارتی قدم ہے۔افغانستان کے ساتھ بھارت کی تجارتی ترجیحات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ اب صرف انسانی امداد نہیں، بلکہ بنیادی ڈھانچے، ٹرانزٹ تجارت، اور صحت کے منصوبوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چابہار بندرگاہ ان منصوبوں کا مرکز بن چکی ہے۔ بھارت افغانستان تک پہنچنے کے لیے قندہار، زرنج اور میلک کے راستے سڑک بنا چکا ہے، جو ایران کے زاہدان ریلوے سے جڑتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ تمام تبدیلیاں ایک چیلنج ہیں۔ افغانستان کے تاجر پہلے کراچی اور گوادر کے راستے تجارت کرتے تھے، لیکن حالیہ سرحدی تنازعات اور نئے ٹیکسوں کے باعث اب وہ ایران اور وسطی ایشیا کے راستے متبادل تجارتی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ کراچی بندرگاہ کے ذریعے جانے والے افغان کنٹینرز کی تعداد چند سال میں تین ہزار سے گھٹ کر آٹھ سو ماہانہ رہ گئی ہے۔دوسری طرف ایران، افغانستان اور بھارت تینوں ممالک اپنی باہمی تجارت کو وسعت دینے کے لیے متحرک ہیں۔ ایران چاہتا ہے کہ بھارت چابہار سے زاہدان ریلوے منصوبے میں دوبارہ شریک ہو جائے، جس کا اسی فیصد کام مکمل بتایا جا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو بھارت کو براہ راست وسطی ایشیا تک ریلوے کنکشن حاصل ہو جائے گا — وہ بھی بغیر پاکستان کے راستے کے۔
لیکن یہ راستہ اتنا آسان نہیں۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات بدستور کشیدہ ہیں، اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایران پر مزید دباو بڑھا دیا ہے۔ اگر آئندہ چھ ماہ میں عالمی حالات بگڑتے ہیں، تو امریکہ یہ چھوٹ واپس بھی لے سکتا ہے۔چابہار بندرگاہ آج جنوبی ایشیا کی سب سے اہم جغرافیائی چال بن چکی ہے۔ یہ صرف بندرگاہ نہیں، بلکہ طاقتوں کی رسہ کشی کا محور ہے۔بھارت اسے تجارت اور اثر و رسوخ کا ذریعہ سمجھتا ہے،ایران اسے پابندیوں کے باوجود سفارتی زندہ دلی کا نشان بنانا چاہتا ہے، جبکہ افغانستان اسے پاکستان پر تجارتی انحصار سے نکلنے کا راستہ دیکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھ ماہ بعد یہ کہانی کہاں کھڑی ہو گی؟ کیا چابہار واقعی ایک پائیدار علاقائی منصوبہ بن سکے گا — یا محض ایک اور سیاسی رعایت ثابت ہو گا؟
|