"بل، بیان اور بندوق: قانون کس کے لیے تھا؟"

پاکستان کی سیاست میں طنز اور سچ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جب سچ بولا جائے تو طنز خود بخود پیدا ہو جاتا ہے، اور جب طنز کیا جائے تو لگتا ہے جیسے سچ بول دیا گیا ہو۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں پیش ہونے والا کریمنل لا (ترمیمی) بل 2021 بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہے — جس کا مقصد بظاہر “ریاستی اداروں کے وقار کا تحفظ” تھا، لیکن آج کے حالات دیکھیں تو لگتا ہے جیسے یہ بل صرف "دوسروں" کے لیے بنایا گیا تھا، "اپنوں" کے لیے نہیں۔

اس بل کے مطابق “جو کوئی پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرے، ان کے خلاف عوام میں نفرت یا بے اعتمادی پیدا کرے، اسے دو سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔”یہ قانون اس وقت کے طاقتور حلقوں کی ڈھال کے طور پر دیکھا گیا۔ صحافیوں نے کہا کہ اب فوج پر تنقید جرم ٹھہرے گی، سیاست دانوں نے کہا کہ یہ اظہارِ رائے پر وار ہے۔ مگر وقت کا کھیل دیکھیے — وہی حلقے جو اس قانون کے محافظ تھے، آج خود اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ نے فرمایا کہ "فوج نے مساجد میں کتّے باندھے"۔ یہ جملہ نہ کسی فلمی اسکرپٹ کا حصہ ہے نہ کسی مزاحیہ شو کا مکالمہ، بلکہ ایک برسرِ اقتدار صوبائی حکومت کے سربراہ کا بیان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات کسی صحافی، یوٹیوبر یا طالب علم نے کہی ہوتی تو کیا وہ اب تک کسی تھانے کی دیوار کے ساتھ تصویر نہ کھنچوا چکا ہوتا؟

قانون کے مطابق، یہ جملہ براہِ راست فوج کو بدنام کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ "مساجد میں کتّے باندھنے" کا الزام نہ صرف فوج کی ساکھ پر حملہ ہے بلکہ مذہبی حساسیت کے تناظر میں عوامی اشتعال پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر کوئی عام شہری ایسا کہے تو وہ بل کی دفعہ 500-A کے مطابق "نفرت اور بے اعتمادی" پھیلانے کا مرتکب ہوتا۔ تو پھر سوال یہ بنتا ہے — کیا قانون صرف عام شہری کے لیے ہے، یا وزیرِ اعلیٰ پر بھی لاگو ہوتا ہے؟

یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ہمارے نظامِ انصاف کی طنز بھری حقیقت شروع ہوتی ہے۔ پاکستان میں قانون کی حیثیت اکثر ٹریفک سگنل جیسی ہے: امیر یا بااختیار آدمی کے لیے سبز، غریب کے لیے ہمیشہ سرخ۔یاد کیجیے، عمران خان کے دور میں جب کسی یوٹیوبر نے "محترم اداروں" پر تنقید کی، تو ایف آئی اے کی سائبر وِنگ اور پولیس کے دروازے اس پر بند نہیں بلکہ کھل جاتے تھے۔ درجنوں لوگ اس الزام میں گرفتار ہوئے کہ انہوں نے “فوج کو بدنام کیا”۔ اب، وہی حکومت جس کے سیاسی وارث اب اقتدار میں ہیں، کیا وہ اس قانون کو اپنے خلاف بھی لاگو کرے گی؟ یا بل اب محض کاغذ پر باقی رہ گیا ہے، جس کی سیاہی صرف مخالفین کے لیے گہری تھی؟

طنز کی حد یہ ہے کہ عمران خان کے زمانے کا یہ بل اس وقت بھی متنازع تھا، آج بھی ہے — فرق صرف کرداروں کا ہے۔ اس وقت “ریاست کے مخالف” وہ تھے جو آج اقتدار میں ہیں، اور آج “ریاست کے مخالف” وہ ہیں جو کبھی حکومت کرتے تھے۔ یوں قانون ایک گھومتا پہیہ بن گیا ہے، جو بس وقت کے مطابق اپنی سمت بدلتا ہے۔اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اس قانون کے اندر کئی آئینی سوالات بھی ہیں۔ آئینِ پاکستان کی دفعہ 19 شہریوں کو “اظہارِ رائے کی آزادی” دیتی ہے، البتہ یہ آزادی کچھ حدود کے ساتھ مشروط ہے — جیسے اسلام، سلامتیِ ریاست، یا عدلیہ اور فوج کے وقار کا احترام۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ “وقار” کی تشریح کون کرے گا؟ اگر کوئی صحافی کسی ناکام پالیسی پر تنقید کرے تو کیا وہ بھی “بدنامی” ہے؟ اور اگر کوئی وزیرِ اعلیٰ کسی ادارے پر الزام لگائے تو کیا وہ “جائز تنقید” ہے؟ قانون خاموش ہے، اور یہی خاموشی سب سے بڑا لطیفہ ہے۔
مزاحیہ بات یہ ہے کہ جب عمران خان کی حکومت نے یہ بل لایا تو اپوزیشن کے ارکان چیخ اٹھے کہ یہ فاشزم ہے، میڈیا پر قدغن ہے، جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے۔ آج انہی جماعتوں کے بعض وزرائ اور وزرائے اعلیٰ وہی بیانیہ دہرا رہے ہیں جس پر کبھی وہ اپنے مخالفین کو غدار کہتے تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کی سیاست میں "غداری" اور "محبت" دونوں صرف وقت اور اقتدار کے تابع اصطلاحات ہیں۔

اب اگر قانون کو واقعی "برابر" سمجھا جائے تو وزیرِ اعلیٰ کے اس بیان پر کم از کم ایک ابتدائی انکوائری تو ہونی چاہیے۔ اگر الزام درست ہے تو فوج کی صفائی سامنے آئے، اگر غلط ہے تو وزیرِ اعلیٰ پر وہی قانون لاگو ہو جو عام شہری پر ہوتا ہے۔ مگر ہمیں سب پتہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس ملک میں قانون کی لمبائی حکمران کے قد کے مطابق ماپی جاتی ہے۔ تحقیقی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بل کے مسودے پر اس وقت وزارتِ داخلہ نے واضح کیا تھا کہ “یہ قانون فوج کی تنقید پر نہیں بلکہ غلط الزامات پر ہے”۔
مگر اب جب الزام کسی سیاسی طاقت کے منہ سے آ رہا ہے، تو شاید وہی وزارت، وہی بیوروکریسی اور وہی ایجنسیز بھی “غلط الزام” اور “سیاسی بیان” میں فرق سمجھنے لگیں گی۔یہی وہ لطیف تضاد ہے جو ہمارے نظامِ قانون کو مسلسل غیر سنجیدہ بناتا ہے۔

آخری سوال یہ ہے کہ اگر فوج واقعی "سیاسی غیر جانبداری" کے اصول پر عمل پیرا ہے، تو پھر ایسے بیانات پر خاموشی کیوں؟ اور اگر خاموشی “برداشت” کے نام پر ہے تو پھر یہی برداشت اس وقت کہاں تھی جب عام شہریوں، یوٹیوبرز اور صحافیوں کو اسی الزام میں جیلوں میں ڈالا گیا؟ اختتام پر کہنا بنتا ہے کہ اس پورے واقعے میں سب سے بڑا مذاق قانون کے ساتھ نہیں، عقل کے ساتھ ہوا ہے۔ ہم نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جہاں قانون “فوج کی عزت” کے تحفظ کے نام پر بنایا جاتا ہے، مگر استعمال “سیاسی مفادات” کے لیے ہوتا ہے۔طنز یہی ہے کہ جس بل سے دوسروں کو چپ کرانے کا خواب دیکھا گیا تھا، آج وہ خود حکمرانوں کے منہ پر ایک آئینہ بن کر کھڑا ہے — اور آئینے سے نظریں چرانا ہمارے سیاست دانوں کا پرانا ہنر ہے۔

#musarratullahjan #kikxnow #digitalcreator #law #silenet
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 848 Articles with 692367 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More