نہ جبر بطور قاعدہ نہ نرمی بطور عذر

حسیب اعجاز عاشر
اس بار گھٹن کی وجہ صرف زرِ مبادلہ، سیاسی مفادات یا علاقائی تضاد نہیں بلکہ سرحد کے پار سے اٹھتی ہوئی وہ شورش ہے جو ہمارے گھر کی خاموش شاموں میں تلخی کا طوفان لا رہی ہے۔ دفترِ خارجہ کا تازہ بیان، جیسے کسی نرم مگر دھات کی مانند کھنک کہ افغان طالبان حکومت کے اندر ایک ایسی لابی متحرک ہے جو پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے؛ اور وہی لابی بعض اوقات نہ جانے کن جبرائیلی اشاروں پر ایسے عناصر کو بھی پناہ دیتی ہے جو پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ۔ پاکستان نے بارہا اور مدبرانہ انداز میں طالبان حکومت سے درخواست کی کہ اپنے دامن سے وہ عناصر الگ کرو جو ہمارے خون کے پیاسے ہیں؛ انہیں حوالہ دو، ورنہ ہم اپنی سرزمین اور عوام کی حفاظت کے لیے جو ضروری قدم اٹھائیں گے، اس کا بوجھ تاریخ آپ کے ہاتھوں رکھ دے گی۔ مگر جواب ہر بار وہی سادہ جملہ رہا: "یہ ہمارے قابو میں نہیں ہیں۔" اور پھر کہا گیا کہ یہ معاملہ "صلاحیت سے زیادہ نیت" کا بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دشمن کا جھنڈا سرحد پار سے لہرا رہا ہو، جب بندوقوں کی صدا ہمارے بچوں کے کھیل کہیں دور دھند میں بدل رہی ہو، تو کیا کوئی قوم اپنی حفاظت کے لیے خاموش رہ سکتی ہے؟ دفترِ خارجہ نے جس اندازِ کلام سے اپنی پالیسی کی طرف اشارہ کیا، وہ سراسر عزم و ہمت کی ماخوذ تھا: پاکستان کسی صورت بھی مسلح شدت پسندوں کو زبردستی سرحد پار دھکیلنے کی اجازت نہیں دے گا، اور جو افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت ملتے ہیں، ان کے خلاف ابھی تک کئے گئے مخلصانہ مطالبات اور سفارتی کوششیں ناکافی ثابت ہوں تو پھر "ٹھوس اور حتمی اقدامات" لازم ہیں۔دفترِ خارجہ نے حقیقت میں یہ تنبیہ بھی کی کہ طالبان حکومت بعض اوقات ٹی ٹی پی یا بی ایل اے جیسے دہشت گردوں کو "پناہ گزین" ثابت کر کے معاملہ آسان بنانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن یہ محض ایک فریب ہے ۔ انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کو جائز ٹھہرانا، بین الاقوامی اخلاقیات کا مذاق ہے۔ پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی پاکستانی کو واپس لینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ وہ باقاعدہ سرحدی گزرگاہوں پر حوالگی ہو، نہ کہ بندوق اٹھائے ہوئے عناصر سرحد عبور کریں۔
ماضی کی تہہ میں جھانکنے پر وہ دردِ مشترک روشن ہو جاتا ہے جس نے اس پورے کشمکش کو ہوا دی: اگست 2021 کے بعد افغانستان میں جو سیاسی خلاء پیدا ہوا، اس نے دہشت گردی کی نئی لہر کو جنم دیا؛ اور ان عناصر نے جن کا تعلق پہلے ہمسائیہ بین الاقوامی مجادلے سے تھا، اب ہمارے اندر گھس کر حملے کیے۔ پاکستان نے جو تحمل اور صبر دکھایا، وہ قابلِ صدِفاد ہے، مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب لوگوں کی جانیں اور معاش کا تحفظ داؤ پر لگا ہو تو قومی فریضہ تقاضا کرتا ہے کہ قانون ساز ادارے، افواج اور عوام سب ایک صفحے پر کھڑے ہوں۔ اسی لیے دفترِ خارجہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام ایک پیکر بن کر، اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہیں۔مگر اِس جنگ و جھڑپ میں جو سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ دونوں طرف مسلمان کٹ رہے ہیں۔
بے شک اس عرصۂ تاریکی میں ہر مکاتبِ فکر کے علما و مفتیانِ کرام پر ایک سنگین اور ضامنِ امت فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک متفقہ، واضح اور غیر مبہم فتویٰ صادر کریں اور بلند آواز میں اعلان کریں کہ جو جماعتیں بے امتیاز مسلمانوں کو خون کے حقیر ہدف بناتی ہیں، وہ خوارج کی صفتِ ظالمانہ کی حامل ہیں اور ان کے افعال و نظریات شرعاً ناقابلِ قبول ہیں۔ یہی اجماعِ علمی وہ ضابطہء اخلاق ہے جو عوام کے دلوں سے شبہات و تقلّبات دور کرے گا؛ نیز سرکاری پالیسی کے لیے بھی ایک روشن دستِ رہنمائی ثابت ہوگا۔ خوارج اور فتنہ الہندوستان کی شروع ہونے والی ٹرمز کو واضح کیا جائے ۔بصورت دیگر پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ کلمۂ حق زبانِ اہلِ ایمان پر نقش ہو اور پھر اسی ایمان کے دعویدار ہاتھ اٹھا کر دوسرے کلمہ گو کے جسم پر ضرب لگائیں،یہ کیسے ممکن ہے۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ امتِ مسلمہ کی شہ رگیں ایک دوسرے کی جان و مال کا تحفظ ہیں۔ علما و مفتیانِ کرام سے دست بدستہ گزارش و درخواست ہے اُمت کو شش وپنج کے طوفان سے نکالیں۔
زمینی حقائق تک محدود رہیں تو پاکستان تومسلسل کوشش میں رہا ہے کہ بات چیت کا راستہ اپنایا جائے۔مطالبہ صرف یہی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود شدت پسند عناصر کے خلاف قابل تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر مذاکرات ٹک جاتے ہیں، کیوں کہ طالبان فریق نے عموماً "عمل" کے بجائے "بیانیہ" کو ترجیح دی ۔ مگرجب سفارتی اور نرم راستے بار بار ناکام ہوئے تو پھر اکتوبر 2025 میں پاکستان کے لئے کچھ عملی اقدامات ناگزیر ہو چکے تھے۔ یہ نہ تو جارحانہ عزائم کا اظہار تھا، اور نہ ہی کسی شدت کے لیے ، بلکہ ایک ریاستی ضرورت تھی جس میں عوام کی جان و مال کا تحفظ اولین درجۂ اول تھا۔ علما و مفتیانِ کرام شرعی تعلیمات کے تناظر میں رہنمائی فرمائیں اور حکومت بھی اپنی حکمت عملی میں نہ جبر کو بطور قاعدہ بنائے اور نہ ہی نرم دلی کو بطور عذر؛ بلکہ ایک توازن قائم رکھیں جس میں سلامتی، انصاف، اور انسانیت تینوں برابر اسٹیج پر ہوں۔اللہ تعالیٰ وطنِ عزیز پاکستان کو ہر آفت سے محفوظ رکھے، اس کے عوام کو اتفاق و اتحاد عطا فرمائے، اور انسانیت پر مبنی پائیدار امن کا گیت ہر سرحد پر گونجائے۔ آمین۔
Haseeb Eajz Aashir | 03344076757
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 143 Articles with 157635 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More