حکیمانہ باتیں

تین سالہ مغز ماری اور محنتِ شاقہ کے بعد بالآخرمیں نے بجلی ، گیس ، ڈیزل اور پٹرول کے بحران کا حل تلاش کر ہی لیا۔وہ یہ کہ اگر ان کے استعمال پر مستقل پابندی عائد کر دی جائے تو ”نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری“ ۔آخر اس میں حرج ہی کیا ہے ؟۔ اگر ہمارے بڑے بوڑھے دئیے میں ٹکے، دو ٹکے کا تیل ڈال کر انتہائی خوش ، خوش حال اور مطمئین زندگی بسر کر سکتے ہیں تو بھاڑ میں جائے ایسی بجلی اور گیس جس نے بیٹھے بٹھائے سکون غارت کر دیا ہے۔کم از کم روز روز کی چخ چخ سے تو نجات ملے گی اور ہمارا مربّی و محسن امریکہ بھی خوش ہو جائے گا جو پاک و ایران توانائی معاہدوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا ہے۔توانائی کے اس بحران پر تو خیر اگلی صدی تک بھی قابو پانا ممکن نہیں کہ اس میں ہمارے مفلس راہبرانِ قوم کی روزی روٹی مضمر ہے لیکن یاد رکھیے کہ اگر میرے حکیمانہ مشوروں کو در خورِ اعتنا ءنہ سمجھا گیا تو ہمارے دونوں ”تیتر” اور ”بٹیر“ آپس میں لڑتے ہی رہیں گے اور وہ وقت دور نہیں جب قوم یہ یہ نظارہ کرے گی کہ
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم

لیکن میں چونکہ رجائیت پسند ہوں ، اس لئے ہر گز مایوس نہیں کہ اپنے جنرل کیانی صاحب اس خلا کو پُر کرنے کے لئے ہر دم تازہ دم ہیں اور بہت ہی اپنے پیر پگاڑا صاحب تو اپنی چشمِ کرامت سے 22 نومبر سے پہلے ایسا ہوتا دیکھ بھی رہے ہیں۔امیدِ واثق ہے کہ محترم ہارون ا لرشید کے ”کالمی درویش“ بھی ایک آدھ دن میں پیر صاحب کی اس پیشین گو ئی کی توثیق فرما دیں گے کیونکہ عمران خاں کو ایک دفعہ پھر ”مقتدرہ“ نے وزارتِ عظمیٰ کی نوید سُنا دی ہے ۔

مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ آخر ڈیزل اور پٹرول جیسی فضولیات کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟۔ہماری سڑکیں گدھا گاڑیوں کے لئے تو موزوں ہو سکتی ہیں موٹر گاڑیوں کے لئے ہر گز نہیں کہ یہاں پیدل چلنے والا موٹر گاڑی والے سے پہلے منزلِ مقصود پہ پہنچ جاتا ہے۔ چھک چھک کرتی ریل کا تیل وزیرِ ریل نے نکال دیا ہے ۔اب PSO اپنا ڈیزل سنبھال کے رکھے اور واپڈا بچے کھچے ریلوے سٹیشنوں کی بجلی بھی کاٹ دے کہ ”رہا کھٹکا نہ چوری کا ، دعا دیتے ہیں ”رہزن “ کو“۔ ہمارے صاحبِ کرامت منیر نیازی تو بہت پہلے یہ کہہ گئے تھے کہ
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور جی لہو سے بھر گیا

وہ تو ہم ہی احمق تھے جو اس شعر کا محبوب شہبوب سے تعلق جوڑتے رہے ، حالانکہ منیر تو یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ آخری ریل اور آخری سیٹی ہے پھر اسے چراغِ رُخِ زیبا لے کر بھی ڈھونڈو گے تو ”ملنے کی نہیں نا یاب ہے یہ “۔ سوچتی ہوں کہ پہلے تو ہم بچوں کو قاعدے میں ”ر“ سے ”ریل“ رٹایا کرتے تھے اب کیا لکھیں گے ؟ اگر ”ر“ سے ”رذیل“ لکھا تو سامنے تصویر کس کی لگائیں گے؟۔

P.I.A کو بھی اب پٹرول کی ضرورت نہیں کہ امریکہ نے اس میں تخریبی جرثوموں کی آمیزش کر دی ہے شاید اسی لئے لاہور سے جدّہ جانے والے جہازاپنی مرضی سے کراچی لینڈ کر جاتے ہیں اور بیچارے پائلٹ کو یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ”خواتین و حضرات ! آج کراچی کو ہی جدّہ سمجھ کر گزارہ کر لیں “ ۔مجھے ڈر ہے کہ اگر امریکہ پاکستان سے اُڑنے والے ڈرون کو نیو یارک سے کنٹرول کر سکتا ہے تو کہیں اس ” تخریبی پٹرول“ کے سبب وہ ہمارے کسی جہاز کو کھینچ کر ”پینٹا گون“ نہ اتار لے اور پھر آدھی رات کو ہمارے صدرِ مملکت کی نیند خراب کرکے یہ سوال کر دے کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو یا مخالف ؟ اور اگر ساتھ ہو تو ایٹمی پروگرام فوراََ بند کر دو “ ۔ غالب امکان تو یہی ہے کہ جناب صدر امریکی دوستی اور بہترین ملکی مفاد میں ایٹمی پروگرام فوری ”ٹھپ“ کر دینے کا حکم صادر فرما دیں گے کہ ایسے ایٹمی پراگرام کا کیا فائدہ جو ہماری عزّت ، غیرت ، خودی اور خوداری کسی کا بھی محافظ نہیں اور جسے ہم نے محض ”شب برات “ پر پھُل جھڑیوں کی جگہ چلانے کے لئے رکھا ہوا ہے۔مذید یہ کہ ہمیں پتھر کے زمانے میں جانے کا فی الحال کوئی شوق بھی نہیں۔ویسے اندر کی بات تو یہ ہے کہ ”پینٹا گون“ میں لینڈ کرنے والے مسافر تو بہرحال خوش ہوں گے کہ بیٹھے بٹھائے امریکہ پہنچ گئے ۔رہی امریکی ویزے کی بات تو وہ اگر نہ بھی ملے تو خیر ہے کہ ہم پاکستانی اِدھر اُدھر کھسکنے میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں-

رہی سٹیل مِل تو وہ تو کب کی قصہ پارینہ بن چکی ۔وہ اب ڈیزل ، پٹرول ، بجلی اور گیس جیسی فضولیات سے مکمل بے نیاز ہو کر استراحت فرما رہی ہے۔البتہ ایک مسلہ ضرور درپیش ہو گا کہ ہمارے محترم وزیرِ اعظم کی سواری کا کیا بنے گا ؟ ۔میرے خیال میں ان کے لئے ”صحرائی جہاز“ یعنی اونٹ کا بند و بست کیا جا سکتا ہے جو معزز و محترم جانور ہونے کے علاوہ اپنی سرشت میں ہم پاکستانیوں جیسا بھی ہے۔ وہ بھی ہم عوام کی طرح کئی کئی دن بھوکا پیاسا رہ کر احتجاج کئے بغیر ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے “ گنگنا سکتا ہے ۔پھر ہمارے راہبروں کو عوام کے کندھوں پر سواری کا بڑا شوق بھی ہے جسے عوام سرشت اونٹ کی سواری سے پورا کیا جا سکتا ہے ۔کابینہ کے لئے بہترین نسلی گدھوں کا بند و بست کیا جانا چاہیے کہ ہمارے وزیروں کو محض ”سواری“ کا شوق ہے باقی جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ تو کہیں اور سے کوئی ”اور“ کرتا ہے۔ تصّور کیجئے کہ جب اسلام آباد کی ”شاہراہِ دستور“ پر ” شُتر سوار وزیر اعظم“ اپنی کثیر کابینہ کے ساتھ گزر رہے ہوں اور پروٹوکول کا عملہ ”ہٹو ، بچو“ کا شور مچاتاہوا اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہو ، تو کیا دل خوش کُن نظارہ ہو گا ۔

میری ان فہم و تدبّر سے لبریز حکیمانہ تجا ویز کو کسی ”تھنک ٹینک“ کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے اور اس پر APS بھی بلائی جا سکتی ہے۔اگر کسی آئینی ترمیم/ تشریح یا من مانی کی ضرورت محسوس ہو تو ”ڈاکٹر“ بابر اعوان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں کہ اب ”شریف الدین پیر زادہ“ دستیاب نہیں۔اگر نواز لیگ حسبِ سابق و عادت ”پھڈا“ ڈالے تو اس کا علاج ” M.B.B.S“ فردوس عاشق اعوان کے پاس موجود ہے ۔پہلوان نما راجہ ریاض صاحب پر ہر گز اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ جب سے ”سینئر وزارت“ چھوٹی ہے ، وہ اُداس اور بو کھلائے بو کھلائے نظر آتے ہیں ۔ایم۔کیو۔ایم اوّل تو اعتراض کرے گی نہیں اور اگر کرے بھی تو ڈاکٹر ذو ا لفقار مرزا زندہ باد۔۔۔۔ ۔۔ اور حرفِ آخر یہ کہ یہ قوم کسی معقول بات پر ہر گز دھیان نہیں دیتی کہ اس میں صبر کی تاب نہیں ۔سچ ہی کہا ہے وزیرِ اعظم صاحب نے کہ ”قوم بہت بے صبری ہے اور یہ معجزوں کا دور نہیں“ ۔ ۔۔۔۔ اس لئے مرتی پھرے سڑکوں پہ ’سانوں کی“۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 866 Articles with 561013 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More