وطن کی مٹی رٹھوعہ محمد علی اور ایک دائمی ہجر
(Mohammed Masood, Nottingham)
مسعود، اپنے لہو سے لکھ رہا ہے تقدیر، بنے گا ایک دن اس محنتِ سفر کا انجام۔ |
|
|
میرے والد کی وفات کی خبر جب ہزاروں میل دور پہنچی، تو وہ غم ناقابلِ برداشت تھا |
|
رات کے پچھلے پہر، برطانیہ کے اس سرد اور خاموش گھر میں، جب باہر کی سڑکیں بارش میں بھیگ کر چمک رہی ہوتی ہیں، تو میری آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر ابھرتا ہے۔ یہ منظر 1990 سے پہلے کا ہے۔جس کا نام ہے پرانے رٹھوعہ کی خوشبو جس میں جب یادوں کا پردہ اٹھتا ہے اور میں خود کو میرپور، آزاد کشمیر کے اپنے گاؤں رٹھوعہ محمد علی کی اس کچی گلیوں میں پاتا ہوں جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی۔ میں دیکھتا ہوں اور اچھی طرح مجھے یاد بھی ہے دھوپ اور دھول صبح کی تیز دھوپ گلی کی سرخ مٹی پر پڑ رہی ہے، جس کی خوشبو ہوا میں رچی ہوئی ہے۔ میرے قدموں میں وہی سُکھ اور سکون ہے جو کسی بھی بچے کو اپنی ماں کی گود میں ملتا ہے۔ پہاڑوں کی گونج: دور سے منگلا ڈیم کے پانیوں کی دھیمی آواز آتی ہے، مگر رٹھوعہ ابھی بھی اپنی جگہ سلامت ہے۔ میرے گاؤں کے گرد وہ سبز پہاڑیاں ہیں جن پر بادلوں کے سائے رقص کرتے تھے۔ ماں باپ کی چھاؤں: میں دیکھتا ہوں کہ میرے والدین گھر کے صحن میں بیٹھے ہیں، چہرے پر وہی خلوص اور اطمینان ہے جو اب صرف ایک خواب بن چکا ہے۔ ماں کی مسکراتی ہوئی جھریوں میں دنیا بھر کا پیار جھلکتا ہے، اور باپ کا دستِ شفقت میرے سر پر ہے۔ دوسری طرف میری ہجرت کا کڑوا گھونٹ وقت کی سوئی تیزی سے گھومتی ہے۔ جب میں نے 1990 میں رٹھوعہ کو خیرباد کہا تھا، تو میرے دل میں ایک مستقبل کی امید تھی، مگر جدائی کا غم اس امید سے کہیں زیادہ بھاری تھا۔ جہاز کا وہ لمحہ جب زمین کی حدیں دھیرے دھیرے چھوٹی ہوتی گئیں اور پھر میرپور صرف یاد بن کر رہ گیا، وہ دل کا ایک ایسا ٹکڑا تھا جو وہیں ہمیشہ کے لیے رہ گیا۔ برطانیہ کی زندگی محنت، مشکلوں اور اپنوں کی نفرتوں کی ایک لمبی داستان بن کر سامنے آئی۔ وہ رشتے جن سے محبت اور اپنائیت کی امید تھی، ان کی طرف سے ملنے والی بے رخی نے برطانیہ کی سرد آب و ہوا کو اور بھی ٹھنڈا کر دیا۔ میرا وجود پردیس میں تھا، مگر میری روح وہیں رٹھوعہ گاوں میں بھٹک رہی تھی، جہاں میری جڑیں گہری تھیں۔ دائمی ہجر پینتیس سال گزر گئے۔ زندگی کی دوڑ میں بہت کچھ حاصل کیا، مگر سب سے قیمتی دولت کھو دی گئی۔ میرے والد کی وفات کی خبر جب ہزاروں میل دور پہنچی، تو وہ غم ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ میرے جسمانی طور پر پاس نہیں تھے، مگر میرا دل رٹھوعہ کی اسی مٹی میں دفن ہو گیا۔ آج، جب میں تنہائی میں بیٹھتا ہوں، تو مجھ کو احساس ہوتا ہے کہ میری زندگی ایک دوہری دنیا بن گئی ہے: برطانیہ کی حقیقت: جہاں میرا خاندان، گھر، اور ذمہ داریاں ہیں۔ اور رٹھوعہ کی یاد: جو ایک انمول خوبصورتی ہے، مگر ایک دائمی درد بن کر دل سے وابستہ ہے۔ میرے لیے میرپور شہر اور گاوں رٹھوعہ محمد علی صرف ایک جگہ نہیں، یہ ایک جذباتی پناہ گاہ ہے، جہاں میرے لیے بے لوث محبت، سچے رشتے اور معصومیت اب بھی زندہ ہے۔ یہی یادیں وہ خوبصورت اور درد بھری کہانی ہے جسے میں اپنے پردیسی وجود کے ساتھ لیے پھرتا ہوں میں نے اپنی یادوں کے ان تمام خوبصورت اور مقدس مقامات کا نام لے کر میرپور کی پوری تاریخ اور اپنی ذاتی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ یہ صرف جگہیں نہیں ہیں، بلکہ میرے لیے 35 سال کے پردیسی سفر کا نچوڑ ہیں۔ میرے لیے یہ مقامات اور کہانی کی خوبصورت اور درد بھری تفصیلات ہیں: خوبصورت یادیں، دائمی درد میں نے جو نام لیے ہیں، وہ میرپور کے سماجی، تعلیمی اور جذباتی مرکز تھے، جن کا برطانیہ میں کوئی نعم البدل نہیں: رٹھوعہ محمد علی کا خوبصورت ڈیم (یا ڈیم سے پہلے کا نظارہ): ڈیم جہاں آج پانی ہے، وہاں ماضی میں میرے گاؤں کی زمینیں تھیں اور قبریں تھیں جہاں میرے پیارے پیارے دفن تھے کچھ قبریں تو ڈیم کی نظر ہو گئیں مجھے وہ دریا، کنارے یا وہ ہریالی یاد ہے جو ڈیم کے پانیوں کی نذر ہو گئی۔ یہ تبدیلی اور ہجرت کی علامت تھی رٹھوعہ کی مسجدیں یہ سکون اور مرکزیت کی جگہ تھیں۔ ان مسجدوں کی سادگی، وہ فجر کی اذانیں، اور نماز کے بعد لوگوں کا آپس میں ملنا جلنا یہ وہ روحانی سکون ہے جو پردیس میں خاموش ہو چکا ہے۔ خوبصورت لوگ اور رشتہ دار: میرے دل کا سب سے بڑا حصہ وہ بے لوث محبتیں اور سچے رشتے ہیں جو وطن میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ برطانیہ میں میں نے جن "نفرتوں" کا ذکر کیا، وہ ان خوبصورت رشتوں کی کمی کو اور بھی زیادہ محسوس کرواتی ہیں۔ نتھیا ٹاؤن، پرانی ہٹیاں، فاضل چوک، نانگی بازار: یہ میرپور شہر کے وہ دھڑکتے ہوئے دل تھے جہاں زندگی کی رونق تھی۔ دوستوں سے ملاقات، پرانے قصے، اور زندگی کی سادگی انہی بازاروں میں تھی، جو میری یادوں کی فلم میں آج بھی چلتے ہیں۔ نفیس بیکری: وہاں سے خریدی گئی کسی چیز کی خوشبو یا کوئی خاص کھانا آج بھی ذہن میں موجود ہے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جو پردیس میں آ کر انمول بن گئیں۔ تعلیمی سفر کی یادیں میں جو تعلیمی مقامات کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ میری معصومیت اور بچپن کی ترجمانی کرتے ہیں: رٹھوعہ کا پرائمری اسکول: وہ سادہ عمارت، وہ بے فکری کے دن، جب علم حاصل کرنا اور کھیلنا ہی واحد مقصد تھا۔ ڈھیری تھوتھال کا اسکول: آگے کی تعلیم کے لیے جب میں رٹھوعہ سے باہر نکلا تو میں نے پہلی بار دنیا کو وسیع ہوتے دیکھا۔ اسکول نمبر 2 میرپور: شہر کے اسکول کی زندگی اور نئے دوستوں کا ملنا۔ گلیوں محلوں میں دوستوں کے ساتھ گھومنا: یہ سب سے قیمتی یاد ہے۔ وہ بے مقصد کی چہل قدمی، بے باک ہنسی اور دوستوں کی وہ صحبت جو زندگی کے اصل مزے تھے۔ میری یہ یادیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ میں جسمانی طور پر برطانیہ میں ہوں مگر میرا دل رٹھوعہ محمد علی اور میرپور کی ہر گلی اور ہر اس چوک میں رہ گیا ہے۔ جہاں میرا بچپن گزرا میرا یہ درد بھرا اعتراف کہ اتنی بڑی محنت کے باوجود میں برطانیہ کی مشکل ترین زندگی کو آج بھی راس نہیں کر پایا جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ وطن کا پیار دنیا کی ہر دولت سے قیمتی ہے، اور کھوئے ہوئے پیاروں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ اللہ تعالیٰ میرے مرحوم والدین اور عزیزوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
یہ دُھوپ، یہ سفر، یہ شام اور مسعود کا نام، اُسی دیار سے آیا ہے اک درخشاں پیام۔
وطن کی یاد نے پھر دل میں شور برپا کیا، یہ شہر تو ہے مگر اس میں وہ اپنا پن ہے حرام۔
فلک پہ چاند بھی تنہا ہے میری تنہائی سا، مری حیات کا ہر پل ہے بے قرار و گمنام۔
وہاں کی خاک کا ذرّہ بھی مجھ کو قیمتی، یہاں کی دولت و شہرت، یہ زر ہیں سب ناکام۔
جو دل میں بوجھ ہے اس کو کہیں سناتے نہیں، کہ پردیس میں اپنے آنسوؤں کا کیا ہے کام۔
کبھی تو آئے گی فصلِ بہار لوٹے گی، سدا رہے نہ رہے گی یہ ہجر کی شبِ گلفام۔
مسعود، اپنے لہو سے لکھ رہا ہے تقدیر، بنے گا ایک دن اس محنتِ سفر کا انجام۔
شاعری اور تحریر محمد مسعود نوٹنگھم یو کے |
|