پاکستان تحریکِ انصاف کے لاہور
میں ہونے والے جلسے کو منعقد ہوئے اگرچہ چند ایام گذرچکے ہیں لیکن اس کی
بازگشت تاحال ملک کے تمام ہی شہروں میں سنائی دے رہی ہے ،کالم نویس اور بڑے
بڑے دانشور بھی عمران خان کے اس شو کی تعریف کررہے ہیں اور مجموعی طور پرسب
کا خیال ہے کہ تحریکِ انصاف کے اس جلسے سے یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ ملک کی
سیاست میں جلد ہی تبدیلی آنے والی ہے، بعض نے یہ بھی کہا کہ عمران خان یہ
بھی ثابت کرنے میں کسی طرح کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کی پارٹی ملک کی تیسری
بڑی پارٹی اور وہ خود تیسرے بڑے سیاست دان کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔
لاہور کے علامہ اقبال پارک میں مینارِپاکستان کے سائے میںاب تک ہونے والے
جلسوںمیں اس جلسے کو گذشتہ نصف صدی کا سب سے بڑا جلسہ بھی قرار دیا جارہا
ہے ۔ اگر ہم اسے سچ مان لیں تو اس سے قبل قراداد پاکستان کی منظور ی کے
موقع پر ہونے والا اجتماع تاریخی طور پر سب سے بڑا تھا جس میں پاکستان کے
قیام کی منظور ی حاصل کی گئی تھی اور اب عمران خان نے اپنی پارٹی کے پہلے
بڑے تاریخی جلسے میں ملک کے کرپٹ سیاست دانوں کو للکار کر اور انہیں اپنے
اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کرکے پاکستان کو نئے اورکرپشن سے پاک
ایماندارانہ نظام کے حامل پاکستان کی نوید سنائی ہے۔ عمران کا یہ کہنا کہ
تحریک انصاف اثاثے ظاہر نہ کرنے پر کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب کریگی اور
ضرورت پڑی تو ایسے سیاست دانوں کا گھیر ا تنگ کرنے کے لئے سول نافرمانی کی
تحریک بھی چلائی جائے گی۔
عمران خان کا یہ عزم خالصتا پاکستان سے محبت اور پاکستان کے استحکام کے لئے
محسوس ہوتا ہے۔
ماضی کے نامور کرکٹر کو اب لوگ دنیا ئے سیاست کے انقلابی سیاست دان کے طور
پر دیکھ رہے ہیں لوگوں کو ان سے اسی طرح کے انقلابی اقدامات کی توقع ہے۔
اس طرح کی توقعات قوم کو ان سے کیوں ہے ؟ انہیں اور انکی تحریک کوموجودہ
جمہوری دور میں اس قدر تیزی سے مقبولیت کیوں حاصل ہورہی ہے یا ہوئی ہے؟
25 نومبر 1952لاہور کے سول انجینئر اکرام اللہ خان نیازی کے گھر پیدا ہونے
والے عمران خان نیازی جو زمانہ طالبعلمی تک ایک عام سے شرمیلے نوجوان تھے،
1971سے 1992تک کرکٹ کے میدان میں چھکے چوکے لگانے اور وکٹیں گرانے میں
مصروف رہے لیکن جب انہوں نے اپریل 1996میں پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد
رکھی تو لوگوں کی اکثریت نے ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی وہ
مختلف شہروں میں جاکر اپنی تحریک کا پیغام پہنچاتے بلکہ اپنے اپ کو ایک
سیاست دان کی حیثیت سے متعارف کراتے ان ہی دنوں میری ان سے پہلی ملاقات
کراچی کے فیرئیر روڈ پر اردو بازار کے قریب موجود کراچی یونین آف جرنلسٹس
کے دفتر میں ہوئی تھی اس وقت میں میں کے یوجے کا نائب صدر تھا ،میں نے ان
سے کہا خان صاحب آپ کے ارادے بہت نیک لگتے ہیں اور آپ کی باتیں بھی بہت
اچھی ہیں لیکن ہمارے ملک کے سیاست دان جو کچھ کررہے ہیں اس کے باعث اب کسی
نئے سیاسی کھلاڑی پر لوگ اعتماد کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں اور آپ کے پاس
تو کارکن بھی نہیں ہیں؟ عمران خان نے میری بات بہت تحمل سے سنی اور کہا ”یہ
بات درست ہے کہ لوگوں کو اب سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں رہا ، نئے سیاست
دانوں پر لوگ اتنی آسانی سے اعتماد نہیں کریں گے لیکن مجھے امید ہے کہ لوگ
بہت جلد میری سیاست کے مقصد اور تحریک انصاف کے منشور اور مقصد کی تعریف
کرنے لگیں گے اور بہت جلد میں لوگوں کی توقعات پر پورا اتر جاﺅں گا ،بس آپ
دیکھئے موجودہ سیاست دانوں کا سحر عام لوگوں کے دل سے اتر جائے“۔
مجھے 30 اکتوبر کے جلسے کے وقت عمران خان کی یہ باتیں شدت سے یاد آرہی ہیں،
مجھے عمران میں وہ مستقل مزاجی نظر آئی جو آج کے سیاست دانوں اور سیاست میں
ختم چکی ہے جس کے نتیجے میں وہ سیاست ہی ختم ہوکر رہ گئی جو صرف عوام کے
لئے اور عوام کے حقوق کےلئے کی جاتی تھی ،آج کے سیاست کے چمپیئن عوام کے
حقوق کی تو بات کرتے ہیں لیکن ضرورت پڑنے پر عوام کے بجائے حکمرانوں کا
ساتھ دیتے ہیں ۔
عمران خان کا جلسہ اس قدر کامیاب ہونے کی اصل وجہ لوگوں کی ان سیاست
دانوںسے مایوسی اور بد اعتمادی ہے جو مسلسل اقتدار میں عوام مسائل کے حل کے
نام پر آتے ہیںلیکن عوام کے مسائل حل کرنا تو کجا ان کے مسائل میں مسلسل
اضافہ کا باعث بن رہے ہیں، عمران خان کی مقبولیت میں تیزی سے ہونے والا
اضافہ دراصل ہمارے موجودہ جمہوری اور غیر جمہوری دور کے حکومتی اور حکومتی
ساتھیوں کی ناقص کارکردگی، بڑھتی ہوئی کرپشن اوراپنے اختیارات کے باعث
شہریوں کی جانیں تک لینے کے درپے ہونے کا ردِعمل ہے، یہ ساست دان عوام کو
انکے حقوق دلانے کی باتیں اور عوام کے حقوق کے نام پر انقلاب کی باتیں تو
کرتیں ہیں لیکن ان کے مسائل کے سدِباب سے زیادہ اپنے مفادات کے حصول کی
جدوجہد میں مصروف نظرآتے ہیں ،حکمرانوں کو کرپٹ کہہ کر کرپشن ختم کرنے کا
مطالبہ اور کرپشن کے خاتمے کے لئے انقلاب کی باتیں کرنے والے یہ لوگ وقت
آنے پر اسی کرپٹ حکومت کا تحفظ کرتے ہوئے نظر آئے ۔
ایسی صورتحال میں عوام کو کسیموجودہ سیاسی شخصیات میں سے کسی حقیقی
رہنماءکی تلاش تھی جو نہ صرف عوام کے احساسات کو سمجھتا ہو بلکہ ان مسائل
کو حل کرنے میں مستقل مزاج بھی ہو ، جو اپنے منشور سے ہٹ کر بات نہ کرتا ہو
اور جو بغیر کسی لالچ اور مفاد کے سیاست کرنا چاہتا ہے۔لوگوں کو ایسے میں
عمران خان ہی نظر آیا جو ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹ کر ان کا مقابلہ بھی کرنا
جانتا ہے۔
پوری قوم کو عمران خان کے روپ میںاب ان کاحقیقی رہنماءنظر آرہا ہے۔ تحریک
انصاف جس طرح حکومت اورحکومتی ساتھیوں کے عوام دشمن رویئے کے باعث تیزی سے
ان کی جگہوں پر بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے اسی طرح خود ان سیاست دانوں کو بھی
جو بہت عرصے سے لوگوں خصوصانوجوانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے اپنی
صفیں سمٹتی اور سکڑتی ہوئی نظر آنے لگی ہیں۔
عمران خان نے کامیاب جلسہ کرواکر نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی قوتوں کو بھی
یہ پیغام دیا ہے کہ اب عوام جاگ چکی ہے اور کسی دہشت گردی یا کسی کرپشن کے
نام پر اب وہ ان کی مزید محتاج نہیں رہے گی اور نہ ہی کسی سے ڈرے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان اپنی جدجہد کو مزید تیز کرنے اور ملک کو
جلد سے جلد عوام کو بے وقوف بنانے والے سیاست دانوں سے چھٹکارہ دلانے کے
لئے ملک کی ایسی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سیاسی،مذہبی اور سماجی شخصیات
کو اپنے ساتھ شامل کرلیں یا ان سے اتحاد کرلیں تو کم ازکم مجھے یہ یقین ہے
کہ ملک سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ترقی کی طرف گامزن ہونے لگے گا۔
لیکن مجھے ڈر ان ظالم قوتوں سے جو طویل عرصے سے پاکستان کی محب وطن شخصیات
کے پیچھے پڑی ہوئی ہیںجو اپنے مفادات کے لیئے پاک وطن میں موجود اپنے
ایجنٹوں کے ذریئے کچھ بھی کراسکتی ہے۔اللہ عمران خان کی حفاظت کرے اور
انہیں ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے کی توقیق دے آمین۔
مجھے اللہ تعالٰی سے یقین ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت ضرور کامیابیوں
کی بلندیوں کو چھوئے گی اگر وہ ملک اور قوم کے لیئے مکمل ایمانداری سے
جدوجہد کرتے رہیں گے ،یہ ہی نہیں بلکہ وہ تمام جماعتیں جو اللہ سے ڈرتی
ہوئی عوام کی خدمت کرینگی اللہ انہیں ضرور کامیاب کرے گا، یہ ہر پاکستانی
کی خواہش ہی نہیں دعا بھی ہے۔پوری قوم کو آنے والے پاکستان کے بہترین دنوں
کا انتظار ہے قوم اپنی خواہش کا اظہار لاہور کے جلسے میں شرکت کرکے کرچکی
ہے بس اس خواہش کی تکمیل ہونا باقی ہے۔ |