سوشل میڈیا کا دور اور صحافت کی گرتی ہوئی پہچان



پاکستان میں صحافت ایک ایسا پیشہ سمجھا جاتا تھا جس کے ساتھ نہ صرف ذمہ داری جڑی ہوتی تھی بلکہ تربیت، تحقیق، ادارتی بنیادیں، پیشہ ورانہ اخلاقیات اور خبروں کی تصدیق جیسے اصول بھی شامل ہوتے تھے۔ پرانے زمانے میں کوئی بھی شخص اخبارات کے دروازے پر تبھی پہنچتا تھا جب وہ رپورٹنگ کے بنیادی اصول سیکھ چکا ہوتا۔ اس کے بعد نیوز روم کی تربیت، سینئرز کی رہنمائی اور ادارتی نگرانی اس کے قلم کو سمت دیتی تھی۔ مگر حالات بدل گئے ہیں۔ اب موبائل فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے منظرنامہ تبدیل کر دیا ہے۔ آج ہر وہ شخص جو ایک ویڈیو بنا لے یا ایک فیس بک پیج چلا لے، خود کو صحافی کہلانے لگا ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف اصل صحافیوں کی محنت کو کم تر دکھایا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متاثر کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران سیاسی تقسیم، سوشل میڈیا ٹیموں کی مہمات، ٹرینڈز کی جنگ اور پروپیگنڈا کلچر نے اس صورتحال کو اور بھی گہرا کر دیا۔ ایسے نوجوان جو نہ خبر لکھنا جانتے تھے نہ تحقیق، نہ قانونِ صحافت سے واقف تھے نہ اخلاقیات سے، وہ یک دم نمایاں ہونے لگے۔ فالوورز کو قابلیت کا پیمانہ سمجھا گیا اور اداروں کی تربیت کو فرسودہ کہہ کر نظرانداز کیا گیا۔ اس ماحول میں اصل صحافیوں کی آواز کمزور پڑتی گئی کیونکہ سوشل میڈیا کا شور زیادہ طاقتور تھا۔

مسئلہ یہ نہیں کہ نئے لوگ اس میدان میں آ رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بغیر علم، بغیر تربیت اور بغیر ذمہ داری کے خود کو صحافی کہلوانا آسان ہو گیا ہے۔ صحافت کا معیار گرتا ہے تو پھر معاشرہ بھی نقصان اٹھاتا ہے۔ خبر اگر تصدیق کے بغیر پھیلتی ہے تو افواہیں سچ بن جاتی ہیں۔ الزامات بغیر ثبوت کے لگتے ہیں۔ reputations تباہ ہوتی ہیں۔ غلط معلومات پالیسیوں اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ عوام کنفیوڑن میں رہتے ہیں اور اعتماد کا بحران جنم لیتا ہے۔

حقیقی صحافت کا مقصد طاقت کے مراکز کو جواب دہ بنانا ہوتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا صحافت کا زیادہ تر حصہ سنسنی اور ذاتی پسند ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اب صحافت کم اور fan club زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ خبر کے نام پر سیاسی جنگ لڑتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو سرگرم رکھنے کے لیے جھوٹی یا ادھوری معلومات پیش کرتے ہیں۔ کلپس، تھمب نیل، اشتعال انگیز جملے اور تضحیک پسند مواد زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ صحافت کا اصل چہرہ دھندلا رہا ہے۔

صحافت کا بحران صرف نئے آنے والوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اداروں کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہے۔ نیوز روم سکڑ گئے ہیں۔ تربیت کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ سینئر صحافیوں کو کنارے لگا دیا گیا ہے۔ تحقیقاتی صحافت پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ میڈیا مالکان مفادات کے قیدی ہیں۔ اور پھر ریاستی دباو¿ بھی ایک حقیقت ہے۔ ایسے ماحول میں آسان راستہ یہی بچتا ہے کہ ہر شخص اپنا چینل بنا لے، اپنی رائے کو خبر بنا دے اور عوام کو تاثر دیا جائے کہ یہی صحافت ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحافت صرف ٹیکنالوجی سے نہیں چلتی۔ موبائل فون ایک آلہ ہے، پیشہ نہیں۔ کیمرہ رکھ کر کوئی فلم میکر نہیں بن جاتا، اسی طرح موبائل ہاتھ میں رکھ کر کوئی صحافی نہیں بن جاتا۔ تحقیق، سیاق و سباق، ذمہ داری اور حقائق تک رسائی وہ بنیادیں ہیں جو صحافت کو دوسروں سے الگ کرتی ہیں۔کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے عوام کو آواز دی ہے اور یہ مثبت ہے۔ اس میں شک نہیں۔ شہری صحافت اپنی جگہ موجود ہے مگر شہری صحافت اور پیشہ ور صحافت میں فرق بھی ضروری ہے۔ عوام معلومات فراہم کر سکتے ہیں مگر انہیں ادارتی فلٹر، تصدیق اور تجزیہ کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر یہ فرق ختم ہو جائے تو معاشرہ غلط معلومات کے سیلاب میں ڈوب جاتا ہے۔

پاکستان میں صحافت کی نئی نسل اگر سوشل میڈیا کی طاقت کے ساتھ تربیت اور تحقیق کو بھی اپنائے تو یہ تبدیلی فائدہ مند بن سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے راستہ واضح ہے۔ یونیورسٹی ڈگری کافی نہیں۔ پریکٹس، ایڈیٹوریل گائیڈنس، رپورٹنگ اصول، fact checking، قانون، ethics، اور field exposure صحافت کا حصہ ہیں۔ جو نوجوان اس راستے پر چلیں گے وہی حقیقی صحافی کہلائیں گے۔ باقی محض influencers رہیں گے۔

اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافی خود اپنے پیشے کی عزت بحال کریں۔ یونینز صرف سیاسی نعرے نہ لگائیں بلکہ تربیت اور پیشہ ورانہ معیار کے لیے کردار ادا کریں۔ میڈیا ادارے اپنی سرمایہ کاری تحقیقاتی صحافت پر کریں نہ کہ صرف اسکرین پر چہروں پر۔ عوام بھی سیکھیں کہ ہر ویڈیو، ہر پوسٹ، ہر کلپ خبر نہیں ہوتا۔ صحافت کی اہمیت تب ہی بحال ہو گی جب سچ، تحقیق اور ذمہ داری دوبارہ مرکز میں آئیں گے۔

یہ بحث آج شروع ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہو رہی۔ آنے والے سالوں میں صحافت مزید بدلے گی۔ مگر یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم شور کے ساتھ جائیں گے یا سچ کے ساتھ۔ دنیا بھر میں معیاری صحافت دوبارہ ابھر رہی ہے کیونکہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ بغیر تصدیق کے معلومات معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ پاکستان بھی اسی حقیقت سے گزر رہا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ صحافت کو دوبارہ علم اور تحقیق کی بنیاد پر کھڑا کیا جائے۔ یہ پیشہ اعتماد مانگتا ہے اور اعتماد صرف محنت، سچائی اور پیشہ ورانہ قابلیت سے بنتا ہے۔

#MediaEthics #JournalismCrisis #SocialMediaInfluence #RealJournalism #FactChecking #ResponsibleReporting #PakMedia #PressFreedom #DigitalAge #PublicTrust
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 861 Articles with 697997 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More