ایک ماحولیاتی مہذب دنیا کی جانب

ایک ماحولیاتی مہذب دنیا کی جانب
تحریر: شاہد افراز خان ، بیجنگ

چین کے شہر چھنگ دو میں منعقدہ عالمی پانڈا پارٹنرز کانفرنس کے موقع پر عالمی ماحولیاتی سوچ اور پائیدار ترقی کے مستقبل پر ایک نئی بحث نے جنم لیا، جس کا محور چینی صدر شی جن پھنگ کا نظریۂ ماحولیاتی تہذیب تھا۔ ایک ایسا نظریہ جو دنیا کو ماحولیاتی بحرانوں، موسمیاتی تبدیلی، اور پائیدار ترقی کے پیچیدہ چیلنجوں سے نکلنے کے لیے ایک نئے فکری راستے کی طرف لے جا رہا ہے۔

آج جب دنیا درجہ حرارت میں اضافے، شدید موسمی واقعات، حیاتیاتی تنوع کے خاتمے اور آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہے، ایسے میں یہ چینی نظریہ نہ صرف چین کے اندر ترقی کا ایک نیا ماڈل تشکیل دے رہا ہے بلکہ عالمی پائیداری کے لیے ایک قابلِ عمل فریم ورک بھی فراہم کر رہا ہے۔

اس نظریے کا بنیادی نکتہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی ہے ، یعنی ترقی کا ایسا راستہ جو ماحول کو قربان کیے بغیر جدیدیت کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ تصور اس بات کی نفی کرتا ہے کہ صنعتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کے مخالف ہیں؛ چین کے مطابق دونوں کا امتزاج ہی مستقبل کا واحد قابلِ قبول راستہ ہے۔

چین نے گزشتہ برسوں میں اس سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نہ صرف اپنی ترقی کی سمت بدلی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی سبز ترقی کی بنیاد سیاسی عزم، ادارہ جاتی اصلاحات، سائنسی و تکنیکی جدت اور بین الاقوامی تعاون کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ ملک بھر میں کاربن نیوٹرلٹی کے ہدف، جنگلات کے پھیلاؤ، صاف توانائی میں تاریخی سرمایہ کاری، اور ماحول دوست شہروں کا قیام اس فکر کے عملی مظاہر ہیں۔

چینی ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف ماحولیات نہیں بلکہ ہمہ جہت پائیدار ترقی کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس میں غربت کے خاتمے، معاشی خوشحالی، عوامی بہبود، توانائی کی سلامتی اور عالمی تعاون کو ایک مربوط حکمتِ عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین آج ماحولیات کے شعبے میں ایک "عملی قائد" کے طور پر ابھر رہا ہے ، جو نہ صرف اپنے تجربات دنیا سے شیئر کر رہا ہے بلکہ عالمی ماحولیات کے لیے حقیقی اقدامات بھی کر رہا ہے۔

نظریۂ ماحولیاتی تہذیب کے تحت چین یہ بات بار بار دہرا رہا ہے کہ دنیا کو مل کر ایک ماحولیاتی تہذیب تعمیر کرنا ہوگی ، ایک ایسی تہذیب جس کی بنیاد کھلے پن، شمولیت، جدت، اور باہمی تعاون پر ہو۔ چین ترقی پذیر ممالک کے ساتھ سبز توانائی، موسمیاتی پالیسیوں، ماحولیاتی ٹیکنالوجی اور توانائی کے ڈھانچے کی تبدیلی کے میدانوں میں تعاون کو وسعت دے رہا ہے۔ خصوصاً گلوبل ساؤتھ کے ممالک اس سوچ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جہاں زیادہ تر ماحولیاتی مسائل براہِ راست ترقیاتی عدم توازن سے جڑے ہوئے ہیں۔

اسی تناظر میں بیجنگ میں منعقدہ گلوبل ساؤتھ ماڈرنائزیشن فورم نے بھی اس بات کو اجاگر کیا کہ گلوبل ساؤتھ ممالک کے لیے ایک ایسا ترقیاتی راستہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے جو پائیدار، ماحول دوست اور عوامی فلاح پر مبنی ہو۔ چین کا ماڈل ان ممالک کو ایک ایسا متبادل فراہم کرتا ہے جو روایتی صنعتی ترقی کے ماحولیاتی نقصانات سے پاک ہے اور عملی طور پر قابلِ اطلاق بھی۔

شی جن پھنگ کے نظریۂ ماحولیاتی تہذیب کی اہمیت صرف اس کے نظریاتی پہلو میں نہیں بلکہ اس کی عملی رہنمائی میں بھی ہے۔ یہ وہ فکر ہے جو نہ صرف ایک قوم بلکہ پوری دنیا کے لیے مستقبل کا راستہ متعین کرتی ہے۔ دنیا کو درپیش موسمیاتی بحران کے پیش نظر یہ نظریہ عالمی برادری کے لیے "یقین" اور "استحکام" کا ایک نیا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔

آج جب کرۂ ارض انسان کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں سے شدید دباؤ میں ہے، ایسے میں چین ایک مشترکہ مستقبل کے لیے ایک نئے ماحولیاتی سماجی معاہدے کی دعوت دے رہا ہے۔ ایک ایسی جدیدیت کی طرف جس کا چہرہ سبز ہو، جس کی بنیاد انصاف اور تعاون پر ٹکی ہو، اور جس میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور قابلِ رہائش دنیا کی ضمانت ہو۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1705 Articles with 975691 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More