بچوں کی قلم سے دوری اور موبائل فون تک رسائی

ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں سچ تلخ بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔ نئی نسل کو دیکھ کر اکثر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آخر اس ملک کے بچوں کے ساتھ ہوا کیا ہے۔علم سے دوری، کتاب سے بے رغبتی، محنت سے نفرت اور اسکرین سے عشق۔ یہ وہ تصویر ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ وہ نسل جسے قلم کے ساتھ مستقبل بنانا تھا، آج کیمرے کے سامنے اداکاری میں مصروف ہے۔ ایک طرف مہنگے موبائل فون، دوسری طرف کھوکھلی تعلیم۔ یہ سب ایک حادثہ نہیں، ایک تیز رفتار تبدیلی کا نتیجہ ہے جس کی قیمت ہم سب ادا کر رہے ہیں۔

اگر موازنہ کریں تو 1982 سے 1998 تک کے طالب علم کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ اس وقت خواہشیں سادہ تھیں۔ ایک اچھا قلم، اچھی کاپی اور اچھی کتاب۔ ایسا لگتا تھا کہ علم ہی سب کچھ ہے۔وہ قلم ایگل یا ڈالر کا ہو، مگر ہمارے لئے خوشی کا ذریعہ تھا۔ ہم اس کو خرید کر ایسے محفوظ رکھتے جیسے کوئی انمول چیز ہو۔ قلم سے رشتہ صرف لکھائی کا نہیں، کردار کا بھی تھا۔ بچے لکھتے تھے، سوچتے تھے، سیکھتے تھے اور محنت کرتے تھے۔

آج کا منظر نامہ بالکل الٹا ہو چکا ہے۔ بچے قلم نہیں مانگتے بلکہ موبائل ماڈلز یاد کرتے ہیں۔ علم کے بجائے ٹک ٹاک ان کی ترجیح ہے۔ کتاب کے بجائے کیمرہ ان کا ساتھی ہے۔ نہ وہ کلاس میں توجہ دیتے ہیں نہ کتاب کھولنے کی زحمت کرتے ہیں۔یہ سب کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ ہم نے تربیت اسکرین کے حوالے کر دی۔گھروں میں وہ ماحول نہیں رہا جہاں بزرگ بیٹھ کر اخلاق، علم اور زندگی کے اصول بتاتے تھے۔اب گھر میں خاموشی چاہیے تو بچے کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا ہے۔ بات کرنے کا وقت نہیں، تربیت کا جذبہ نہیں، اور دلچسپی تو بالکل ختم ہو گئی ہے۔ بچے سوال کریں تو انہیں “ویڈیو لگا کر چپ کراو¿” کہا جاتا ہے۔نتیجہ یہ کہ وہ ویڈیو سے تربیت لے رہے ہیں، انسان سے نہیں۔

تعلیمی اداروں کا حال بھی مختلف نہیں۔ استاد پر اتنا بوجھ ہے کہ تربیت کے لئے وقت ہی نہیں بچتا۔ جس نظام میں استاد کی عزت کم ہو جائے، وہاں طالب علم کی سوچ خود بخود بکھر جاتی ہے۔کتاب سے دوری اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب استاد کی بات اہمیت کھو دیتی ہے۔ آج بچے استاد کو مشعلِ راہ نہیں بلکہ ایک ”گریڈ دینے والا فرد“ سمجھتے ہیں۔پھر آتا ہے سوشل میڈیا۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں کامیابی کا معیار محنت نہیں بلکہ شہرت ہے۔ ایک ویڈیو وائرل ہو جائے تو بچہ سمجھتا ہے کہ یہ ہی زندگی ہے۔فالوورز زیادہ ہوں تو وہ خود کو کامیاب سمجھتا ہے، چاہے اس کے علم کی بنیاد ریت کی دیوار ہو۔ یہ وہ فریب ہے جس نے نئی نسل کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔

کیا نئی نسل میں ٹیلنٹ نہیں؟ ضرور ہے۔ وہ ذہین بھی ہے، تیز بھی، تخلیقی بھی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ راستہ غلط مل گیا ہے۔ اگر یہی نسل اپنی توانائی کتاب اور ہنر پر لگائے تو دنیا بدل سکتی ہے۔ لیکن جب ان کی پہلی شناخت ”اداکار“ اور ”ٹک ٹاکر“ بن جائے تو پھر قلم کی طرف کون دیکھے گا؟اصل نقصان یہ نہیں کہ بچہ ویڈیو بنا رہا ہے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ اسے علم اور ہنر کی قدر نہیں بتائی گئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ شہرت عارضی ہوتی ہے، علم مستقل طاقت ہے۔ ایک وائرل ویڈیو اگلے دن پرانی ہو جاتی ہے، مگر کتاب کا اثر زندگی بھر رہتا ہے۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں کو دوبارہ کتاب کے پاس لائیں۔ یہ ممکن ہے، لیکن اس کے لئے والدین، اساتذہ اور معاشرے تینوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔گھر میں کتابیں نظر آئیں، گفتگو ہو، علم کو اہمیت دی جائے۔ استاد صرف گریڈ نہ دے بلکہ تربیت بھی دے۔ معاشرہ صرف مشہور لوگوں کو نہ سراہا کرے بلکہ باکردار لوگوں کا احترام بھی کرے۔اگر آج کے بچوں کے ہاتھ میں دوبارہ قلم آ گیا تو ہمارے کل میں روشنی ہو گی۔لیکن اگر ہم نے انہیں اسی بے سمت دوڑ میں چھوڑ دیا تو آنے والی نسل کتاب سے نہیں بلکہ سکرین سے تیار ہو گی۔اور سکرین انسان نہیں بناتی، صرف اداکار بناتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے۔لیکن اسے بدلنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔
#A_Bitter_Truth #LostGeneration #EducationCrisis #PenVsPhone #TikTokCulture #YouthDecline #ParentsAndScreens #RoleOfTeachers #SocialMediaImpact #FutureAtRisk #Kikxnow #YouthAwareness

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 865 Articles with 700189 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More